Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا تعلیمی نصاب میں تبدیلی سے خیبر پختونخوا میں انتہاپسندی کا خاتمہ ممکن ہے؟

فیصل ترکئی نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھی کوئی سکول بند نہیں ہے، تمام سکول فعال ہیں۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک اضافے کی وجہ سے صوبائی حکومت نے انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے تعلیمی نصاب میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم فیصل ترکئی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انتہاپسندی اور شدت پسندی جیسی منفی سوچ کے خاتمے کے لیے ابتدائی و ثانوی تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پرائمری سکولوں کی سطح پر نصاب میں نئے موضوعات شامل کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے بھی نصاب میں کافی بہتری لائی گئی مگر اس میں مزید اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔‘
صوبائی وزیر تعلیم کے مطابق ’سنہ 2004 سے اب تک سینکڑوں سرکاری سکول دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور سب سے زیادہ نقصان محکمہ تعلیم کے انفراسٹرکچر کو ہوا۔ دہشت گرد چاہتے تھے کہ بچے علم کی روشنی سے محروم رہے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔‘
فیصل ترکئی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں بھی کوئی سکول بند نہیں، تمام سکول فعال ہیں۔ اور جن سکولوں کی عمارتیں تیار ہیں ان کے لیے سٹاف کی تعیناتی کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہاپسندوں کا مقابلہ کر کے ہمارے اساتذہ کے اعصاب مضبوط ہو چکے ہیں، اب ہماری کوشش ہے کہ مستقبل کے معماروں کو شدت پسندی سے مقابلے کے لیے تیار کریں۔

’یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی ذہن سازی نہیں ہو رہی‘

صوبائی حکومت کے نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے ماہر تعلیم ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ ہمارے ملک میں یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی ذہن سازی نہیں ہو رہی ہے۔ سرکاری سکولوں کا اپنا نصاب ہے اور نجی یا انگلش میڈیم سکولوں کا تعلیمی نظام الگ ہے جبکہ مدارس میں یکسر مختلف نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ درسی کتابوں میں نفرت انگیز مواد شامل کیا گیا تھا جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 22 اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کنونشن کے بھی منافی ہے مگر نشاندہی کے بعد اسے نصاب سے ہٹا دیا گیا۔‘
ڈاکٹر عبدالسلام کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں نصاب سے نفرت انگیز مواد ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر تمام صوبوں نے کافی حد تک عمل درآمد کیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں نصاب سے نفرت انگیز مواد ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی مثبت ذہن سازی اور ذمہ درانہ رویے کے لیے متوازن نصاب بہت ضروری ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

’نفرت پر مبنی موضوعات بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں‘

نصاب میں نفرت انگیز مواد کے حوالے سے پشاور کے ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نصاب میں جنگ و جدل، نفرت اور تعصبانہ تجزیوں پر مبنی موضوعات بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے قصے کہانیاں پڑھ کر بچوں میں غصہ یا انتقام کی چنگاری پیدا ہو جاتی ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ شدت پسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی کے لیے معاشرے کے روشن پہلو اور مثبت موضوعات پرمبنی موضوعات نصاب میں شامل ہونے چاہییں۔
ڈاکٹر خالد مفتی کا مزید کہنا تھا کہ سکول اساتذہ بھی بچوں کے ذہنوں اور رویوں میں مثبت تبدیلی کی وجہ بن سکتے ہیں جس پر محکمہ تعلیم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

شیئر: