Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض کتاب میلہ: انگریزی تحریر کے سعودی مصنفین کے لیے نادر موقع

پبلشنگ ہاؤسز کی جانب سے جس طرح کا تعاون دیکھ رہے ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔ فوٹو عرب نیوز
ریاض میں سجنے والا بین الاقوامی کتاب میلہ طویل عرصے سے مملکت کے دارالحکومت میں ادبی سرگرمیوں کا محور رہا ہے، یہ ایونٹ ابھرتے ہوئے سعودی مصنفین کی مدد کرتا ہے جو اندرون اور بیرون ملک انگریزی قارئین کو  مواد مہیا کرتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کتاب میلے میں انگریزی زبان کے سعودی مصنفین اشاعت کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بین الاقوامی قارئین تک ثقافتی بیداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ 
شہزادی نورہ بنت عبدالرحمن یونیورسٹی میں تخلیقی امور کی پروفیسر فاطمہ عبداللہ القحطانی نے بتایا کہ ’ماضی میں انہیں انگریزی زبان میں لکھنے پر علاقائی پبلشرز کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کا سامنا رہا اور انہیں عربی میں لکھنے کا مشورہ دیا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی تحریروں کا مقصد غیرملکی اور سعودیوں کی نوجوان نسل دونوں کے لیے ہے جو روانی سے انگریزی پڑھنا جانتی ہیں۔‘
سعودی عرب میں خاص طور پر نوجوانوں کی نئی نسل میں اس وقت انگریزی کو بین الاقوامی زبان کے طور پر پذیرائی حاصل ہے۔
پروفیسر فاطمہ  القحطانی کی تحریر کردہ ’تخلیقی صلاحیت اور قدامت پسندی‘ میں سعودی خواتین کی صلاحیتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی تحریر مذہب کی بھرپور تاریخ کو مملکت میں ابھرتے ہوئے منظر نامے سے جوڑتی ہے۔

 بین الاقوامی کتاب میلے میں اپنی کہانی کے لیے بہترین پبلشر کی تلاش ہے۔ فوٹو: عرب نیوز

فاطمہ القحطانی کے مطابق مذہبی تاریخ نے فن کی اجتماعی تفہیم کی بنیاد رکھی ہے۔ سعودی عرب کے مغربی ریجن میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مذہب کے اہم مراکز ہیں اور تاریخی لحاظ سے یہ علاقے سب سے زیادہ کثیر الثقافتی رہے ہیں۔
ہالہ الشاتری ریاض میں جزیرہ گروپ میں ایڈمن اور فنانشل سروسز کے نائب صدر کے طور پر تعینات ہیں، وہ نوجوان نسل کو تحریر کے حوالے سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا ہے وہ فارغ اوقات میں ایسا کچھ ایسا تحریر کرتی ہیں جو قارئین کو اپنی منتخب کردہ فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے کے بارے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔

’ویلیوز آف میسٹری‘ زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ثابت ہوئی۔ فوٹو انسٹاگرام

ہالہ الشاتری کی نئی تحریر شدہ کتاب ’ویلیوز آف میسٹری‘ ریاض بین الاقوامی کتاب میلے میں رکھے جانے کے فوراً بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے  والی کتاب ثابت ہوئی۔
انہوں نے بتایا ’میں انگریزی زبان میں اپنی کتاب شائع کرنے کے لیے بے تاب تھی کیونکہ ہمارے پاس کتاب میلے کا پلیٹ فارم اسے متعارف کرانے کا اچھا موقع تھا کہ ہمارا معاشرہ کس طرح کام کرنے کے میدان میں خواتین کی مدد کر رہا ہے۔
ہالہ الشاتری چاہتی ہے کہ دنیا آج کاروبار کے شعبے میں سعودی خواتین کی کامیابیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے۔

مملکت کا مغربی ریجن  تاریخی لحاظ سے زیادہ کثیر الثقافتی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیوں سوچتی ہیں کہ ان کی کتاب اتنی مشہور ہے الشاتری نے بتایا کہ خلیج کے علاقے میں ملازمتوں سے متعلق بڑھتی ہوئی مسابقت نوجوان نسل کو برتری حاصل کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے پر ابھار رہی ہے۔
آج ہم پبلشنگ ہاؤسز کی جانب سے جس طرح کا تعاون دیکھ رہے ہیں وہ حیرت انگیز ہے اور ریاض کا بین الاقوامی کتاب میلہ میری کہانی کے لیے بہترین پبلشنگ ہاؤس تلاش کرنے کا نادر موقع ہے۔

شیئر: