Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجوزہ آئینی ترامیم: حکومت نے جمیعت علمائے اسلام کے کونسے مطالبات تسلیم کیے؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہنما شاہدہ اختر علی کا کہنا ہے کہ حکومت نے جے یو آئی ف کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ کی تشکیل کا فیصلہ کر لیا ہے۔
جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شاہدہ اختر علی نے اُردو نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ ’آئینی بینچ صرف وفاق کی حد تک محدود ہو گا جبکہ حکومت کے ساتھ موجودہ چیف الیکشن کمیشنر اور ممبران کو توسیع نہ دینے کے معاملات پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا حکومت سے آئینی عدالت کی تشکیل پر اختلاف تھا تاہم متعدد ملاقاتوں کے بعد اب حکومت وفاقی سطح پر آئینی بنچ کی تشکیل پر رضامند ہو گئی ہے۔‘

تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے آئینی ترامیم کے معاملے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں: جے یو آئی (ف)

پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے درمیان مجوزہ آئینی پر پیش رفت کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے شاہدہ اختر علی نے بتایا کہ ’مولانا فضل الرحمان کی کوشش ہے آئینی ترامیم پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات سنیں جائیں۔
ہماری خواہش ہے کہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو اور احسن انداز میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔‘

سیاسی جماعتوں کی اکثریت کے متفق ہونے پر آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دی جا سکتی ہے : جے یو آئی (ف)

رہنماء جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنا مسودہ بھی حکومت کے سامنے رکھا ہے اور دوسری جماعتوں کو بھی آئینی ترامیم کے معاملے پر رہ تیار کرنے کی کہا تھا۔
لیکن اگر اکثریتی جماعتیں متفق کو جاتی ہیں تو اس کے حق میں ووٹ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی۔
پارلیمان کا کام ہی اچھی قانون سازی کرنا ہے اگر سب سیاسی جماعتوں کے مسودے میں مشترکات ہیں تو اُن پر قانون سازی ہو سکتی ہے۔‘
شاہدہ اختر کے مطابق جمعیت علمائے اسلام سپریم کورٹ کے متوازی عدالت بنانے کے حق میں نہیں تھی۔ نئے تشکیل دیے جانے والے بینچ کے پاس اگر آئینی کیسز نہیں ہوں گے تو وہ معمول کے کیسز سنے گا۔‘

'وفاقی حکومت چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو توسیع نہیں دے گی'

جمعیت علمائے اسلام اور حکومت کے درمیان آئینی ترامیم سے قبل طے پانے والے نکات پر گفتگو کرتے ہوئے شاہدہ اختر علی نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو توسیع نہ دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔
شاہدہ اختر علی کا بتانا تھا کہ ’حکومت قرارداد کے ذریعے موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا چاہتی تھی، جو کہ اب نہیں ہوگی،
مولانا فضل الرحمان کا جو پہلے دن سے موقف تھا اِسی پر حکومت نے اتفاق کیا ہے۔‘

شیئر: