مولانا پھر روٹھ گئے، رات گئے وزیراعظم اور بلاول کی منانے کی کوششیں ناکام
جمعہ 18 اکتوبر 2024 8:14
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اُن کے خلوص کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں اتفاق رائے کے باوجود جے یو ائی کے ایک سینیٹر کے مبینہ اغوا کے بعد صورتحال ایک بار پھر بگڑ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آج جمعے تک معاملات بہتر کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا فضل الرحمن کو فوری طور پر راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
جمعرات کی شب وزیراعظم شہباز شریف رات گئے بغیر کسی پروٹوکول کے مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے۔ ان کے ساتھ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی تھے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری پہلے سے ہی مولانا کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ملاقات میں آئینی ترامیم پر تبادلہ خیال ہوا، تاہم وزیراعظم اور بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور آئینی ترامیم پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے جے یو آئی اراکین اسمبلی کو ہراساں کرنے پر ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے وزیراعظم اور بلاول بھٹو سے شکایت کی کہ ایک طرف انہیں آئینی ترامیم پر راضی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف انہی کے اراکین پارلیمنٹ کو غائب کیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں آئینی ترامیم کے لیے متفقہ لائحہ عمل پر غور کر رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے اراکین کو دباؤ میں لانے اور آفرز دینے کا سلسلہ ترک کرے۔ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اعتماد کی فضا قائم کرنا ہوگی، اور حکومت کو جے یو آئی کی جانب سے دیے گئے مسودے کو ترجیح دینی چاہیے۔
ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو میڈیا سے گفتگو کے بغیر مولانا فضل الرحمان کے گھر سے روانہ ہوئے تاہم بلاول بھٹو نے جاتے ہوئے گاڑی سے وکٹری کا نشان بنایا۔
اس سے قبل مجوزہ آئینی ترمیم پر جمعیت علما اسلام اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے درمیان طویل ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پی ٹی آئی کے وفد اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان آئینی ترامیم کے مسودے پر مشاورت ہوئی۔ ملاقات میں پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر، عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، حامد خان اور صاحبزادہ حامد رضا شامل تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’اگر بدمعاشی ہوگی تو ہم بھی اپنا رویہ تبدیل کریں گے۔ آئینی ترمیم کا پہلا حکومتی مسودہ ہم نے مسترد کیا تھا اور آج بھی مسترد کرتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر تین ہفتوں سے مشاورت جاری ہے۔ ہم نے حکومت سے مذاکرات کیے اور اس حوالے سے نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔‘
مولانا کا کہنا تھا کہ دو دن قبل بلاول بھٹو کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور پھر گزشتہ روز چار گھنٹے تک نواز شریف سے بھی بات چیت ہوئی۔ جن نکات پر اتفاق ہوا تھا ان کا اعلان کیا جا چکا ہے جبکہ باقی متنازع نکات پر بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی کا رویہ مثبت ہے اور وہ ہر مثبت قدم کا خیرمقدم کر رہی ہے، اس پر مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ ’اگر اراکین کو ہراساں کرنے اور خریدنے کا سلسلہ صبح تک نہ رکا تو حکومت یاد رکھے کہ ہم سخت رویہ اختیار کریں گے۔ ہمارے خلوص اور سنجیدگی کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر متنازع ترمیم کے لیے زبردستی ووٹ لیے جائیں گے تو یہ جمہوریت نہیں ہوگی۔ ’ہم دونوں جماعتوں نے اپنے اراکین کو آرٹیکل 63 اے کے تحت نوٹس جاری کر دیے ہیں، جس میں انہیں پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ دینے کا پابند کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ اتفاق رائے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ روز سینیٹ میں اتحادی جماعتوں کے ارکان کو ظہرانہ دیا گیا تھا جس میں اہمیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی نے مجوزہ آئینی ترمیم پر سینیٹرز کو بریفنگ دی تھی۔
یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ حکومت کے پاس سینٹ میں نمبر گیم پورے ہو گئے ہیں اج جمعے کو سینٹ میں ترمیم پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایک بار پھر سخت موقف اپنانے کے بعد صورتحال ایک بار پھر کافی تبدیل ہو چکی ہے جس میں حکومت کے لیے مولانا کو منائے بغیر کسی بھی ایوان سے آئینی ترمیم بل منظور کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔