Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سنیک سٹون‘، انڈیا کا ہسپتال جہاں سانپ کے کاٹنے کا علاج پتھر سے ہوتا ہے

یہ ہسپتال مظفرپور میں 1976 میں ہولی کراس سسٹرز سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا (فوٹو: آئی این سی)
گذشتہ دنوں معروف ناول نگار فریڈرک فورستھ کی ایک کہانی ہاتھ لگی جس کا عنوان تھا ’دیئر از نو سنیک ان آئرلینڈ‘ یعنی آئرلینڈ میں سانپ نہیں پائے جاتے۔
لیکن کہانی میں ایک انڈین اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے آئرلینڈ میں سانپ لے آتا ہے اور کہانی اس موڑ پر ختم ہوتی ہے کہ وہ مادہ سانپ کسی گھاس میں بچے کو جنم دے رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آئرلینڈ سانپ سے پاک ملک ہے اور اس کی اپنی تاریخی اور جغرافیائی وجوہات ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سانپ پائے جاتے ہیں اور سانپوں سے ہر سال ہزاروں اموات ہوتی ہیں۔
سانپ کاٹنے کے زیادہ تر واقعات مون سون اور اس کے بعد کے موسم میں ہوتے ہیں جب سانپوں کی پناہ گاہوں میں پانی گھس جاتا ہے تو وہ انسانوں کی آبادی کی جانب چلے آتے ہیں اور انسان ان کا شکار بنتے ہیں جبکہ وہ بھی انسانوں کا شکار بنتے ہیں۔
یہاں ہمارا مقصد انڈیا میں سانپوں کی اموات پر بات کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے ہسپتال کے بارے میں بات کریں گے جو سانپوں کے کاٹے کے علاج کے لیے مختص ہے۔
یہ شاید دنیا کا پہلا اور واحد ہسپتال ہو گا جو سانپوں کے علاج کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ہسپتال انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے مظفرپور میں قائم ہے اور یہ مسیحی مشنری کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
دنیا میں بھر میں سانپ کے کاٹنے سے جتنی اموات ہوتی ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ انڈیا میں ہوتی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ہر سال 58 ہزار لوگ سانپ کے کاٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سانپ کے کاٹنے کے معاملے میں انڈیا میں تقریباً 90 فیصد اموات عام کریت، انڈین کوبرا، رسل وائپر اور سکڑا یعنی سکلڈ وائپر کے کاٹنے سے ہوتی ہیں۔
دیہاتوں میں عام طور پر لوگوں کو سانپ کا سامنا رہتا ہے لیکن چونکہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اس لیے اموات کم ہیں۔
سانپ کے کاٹنے سے آنے والے زخموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اکثر موت سے بھی بدتر ہوتے ہیں، اور اس کا سماجی و اقتصادی اثر اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو فوری طور پر نظر نہیں آتے۔

پربھات تارا ہیلتھ کيئر سانپ کے ڈسے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے (فوٹو: آئی این سی)

اس کی زد میں آنے والے عام طور پر کسان ہوتے ہیں کیونکہ وہی ان علاقوں میں جاتے ہیں جہاں وہ چھپے ہوتے ہیں یا پھر برسات کے موسم میں سانپ خود ان کے گھروں میں آ جاتے ہیں۔
پربھات تارا ہیلتھ کیئر
شہر کا پربھات تارا ہیلتھ کيئر سانپ کے ڈسے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وہاں عام دنوں میں روزانہ سانپ کاٹنے کے 30-40 مریض پہنچتے ہیں۔ جبکہ مون سون کے موسم میں یہ تعداد بڑھ کر 100 تک پہنچ جاتی ہے۔
اگرچہ سانپ کے معاملے میں انڈیا کی وسطی ریاست آندھر پردیش اور وندھیاچل کا علاقہ زیادہ خطرناک ہے اور اموات کی شرح وہاں زیادہ ہے لیکن اترپردیش اور بہار اس کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
لیکن بہار کے مظفرپور میں قائم پربھات تارا ہسپتال میں نہ صرف اس ضلعے سے بلکہ نیپال کے سرحدی علاقوں اور دوسرے اضلاع سے بھی سانپ کے کاٹے کا علاج کرانے کے لیے مریض پہنچتے ہیں۔
ان اضلاع میں سمستی پور، شیوہر، مشرقی اور مغربی چمپارن، گوپال گنج، سیوان، دربھنگہ، ویشالی، سیتامڑھی اور مدھوبنی اضلاع شامل ہیں۔ یہاں سانپ کے کاٹنے والے مریضوں کے لیے 100 روپے فیس لے کر ایک سال کے لیے کارڈ بنایا جاتا ہے۔
غیر معمولی طریقۂ علاج
عام طور پر انڈیا کے سرکاری ہسپتالوں میں سانپ کے کاٹے کا علاج موجود ہے لیکن اس کے لیے اینٹی وینم انجیکشن کی عدم دستیابی کی شکایت عام ہے۔
بہت سے معاملے میں جھاڑ پھونک سے بھی علاج کیا جاتا ہے لیکن جب زہریلے سانپ نے کاٹا ہوتا ہے تو یہ کارگر نہیں ہوتا۔

پتھر کے علاج کے ساتھ مریضوں کو اینٹی وینم انجکشن بھی لگانا پڑتا ہے جو کافی مہنگا ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن پربھات تارا میں علاج کا اپنا انداز ہے۔ ہسپتال کی انچارج سسٹر گلیڈس نے ایک ہندی روزنامے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں سانپ کے ڈسے ہوئے مریضوں کا علاج سانپ کے پتھر (سنیک سٹون) کے ساتھ اینٹی وینم جو جرمنی اور جنوبی افریقہ میں پایا جاتا ہے سے کیا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’سنیک سٹون کو سانپ کے کاٹنے والی جگہ پر باندھ کر پانچ 5 گھنٹے تک مشاہدے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ جس مریض کا زہر پورے جسم میں پھیل گیا ہوتا ہے اس کے زخم کے ساتھ 10 سے 12 گھنٹے کے اندر سانپ کے کاٹنے کی جگہ پتھر بدل دیا جاتا ہے۔ مریض کے ٹھیک ہونے کے بعد پتھر کو پانچ گھنٹے تک دودھ میں رکھا جاتا ہے اور پھر اس پتھر سے دوسرے مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ مریض جتنی جلدی ہسپتال پہنچتے ہیں، زندہ رہنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔‘
یہ ہسپتال مظفرپور میں 1976 میں ہولی کراس سسٹرز سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ ابتدا میں اسے ٹی بی کے مریضوں کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن وہاں جب سانپ کے مریض آنے لگے تو یہ سانپ ہسپتال کے نام سے مشہور ہو گیا۔
یہ ہسپتال گذشتہ 48 سالوں سے خدمات انجام دے رہا ہے اور اب تک لاکھوں مریضوں کی جانیں بچائی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پتھر کے علاج کے ساتھ مریضوں کو اینٹی وینم انجکشن بھی لگانا پڑتا ہے جو کافی مہنگا ہوتا ہے اور اس کا خرچ مریض کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ سرکاری ہسپتال میں یہ کم قیمت پر یا مفت دستیاب ہوتا ہے۔
شہر میں ایک اور ہسپتال ہے جسے ’شری کرشنا میڈیکل کالج اور ہسپتال‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہاں بھی سانپ کے کاٹے کا علاج ہوتا ہے اور عام طور پر وہاں مریض بہت ہی نازک حالات میں پہنچتے ہیں۔
لیکن وہاں پربھات تارا کے مقابلے میں بہت کم لوگ سانپ کے علاج کے لیے پہنچتے ہیں۔ اپنے زمانے کے ایس کے ایم سی ایچ کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بی ایس جھا نے بتایا کہ یہاں سانپ کے ڈسے سنگین مریضوں کا ہنگامی بنیادوں پر علاج کیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انھیں وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے۔

میں زہر کو چوسنے کی خاصیت پائی جاتی ہے جیسا کہ کبھی جونک وغیرہ سے زہر کا علاج کیا جاتا تھا (فوٹو: آئی این سی)

بہر حال پربھات تارا انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہاں بچھو کے ڈسے مریض اور انسان کے دانتوں کے کاٹنے والے مریض بھی پہنچتے ہیں اور ان کا علاج بھی اسی نہج پر کیا جاتا ہے۔
پہلے علاج کے لیے سنیک سٹون نامی پتھر جرمنی سے منگایا جاتا تھا لیکن اب یہ انڈیا کی جنوبی ریاستوں سے بھی منگوایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں زہر کو چوسنے کی خاصیت پائی جاتی ہے جیسا کہ کبھی جونک وغیرہ سے زہر کا علاج کیا جاتا تھا۔
بہر حال انڈیا میں سانپ سے مرنے والوں کی تعداد بتاتی ہے کہ طریقہ علاج کچھ بھی ہو، بہت سے علاقوں میں بروقت سہولیات موجود نہیں ہیں اور بہت سے علاقوں میں جھاڑ پھونک کے چکر میں بھی جب دیر ہو جاتی ہے تو سانپ کے کاٹے سے جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہوتا ہے۔

شیئر: