Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کینیڈا کے انڈیا پر الزامات سے سکھ کمیونٹی کے مؤقف کی توثیق ہوئی؟

کینیڈا نے انڈین سفیر سمیت سفارتکارتوں کو ملک سے نکال دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کینیڈا کی جانب سے انڈیا پر ’جارحانہ مداخلت‘ کے حالیہ الزامات کے باعث اگرچہ دوطرفہ تعلقات مزید تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، تاہم دوسری جانب ان بیانات سے سکھ رہنماؤں کے مؤقف کو بھی توثیق ملی ہے۔
جمعے کو دارالحکومت ٹورنٹو میں انڈین قونصل خانے کے باہر احتجاج میں شامل ہریندر سوہی نامی ایک سماجی کارکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘یہ ایسا معاملہ ہے جس پر ہم کئی سالوں سے یقین رکھتے تھے لیکن لوگ ہمیں سن نہیں رہے تھے۔‘ 
خالصتان تحریک سے منسلک 42 سالہ ہریندر سوہی کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی حکومت کے حالیہ بیانات نے سکھوں کے مؤقف کو درست ثابت کر دیا ہے۔
کینیڈا نے خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے 2023 میں ہونے والے قتل کا الزام انڈیا پر عائد کیا ہے۔
رواں ہفتے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انڈیا کا خالصتان تحریک کے کینیڈین سماجی کارکنوں کو نشانہ بنانا نجار کے قتل سے معاملہ آگے بڑھ گیا ہے اور ڈرانے، تشدد اور دھمکیوں کی ایک وسیع مہم اس کا حصہ ہے۔
تاہم انڈیا نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
بدھ کو غیرملکی مداخلت کے معاملے پر انکوائری کمیشن کے سامنے گواہی میں وزیراعظم ٹروڈو نے کہا تھا کہ ’انڈین حکومت نے یہ سوچ کر خوفناک غلطی کی ہے کہ وہ اس حد تک جارحانہ مداخلت کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کینیڈا کے تحفظ اور خودمختاری میں کی۔ ہمیں کینیڈا کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جواب دینا ہوگا۔‘
کمیٹی کے سامنے تفصیلی ریمارکس میں ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا انڈیا کے ساتھ اپنے قیمتی تعلق کو ’تباہ‘ نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد ’ہمیں واضح اور اب مزید واضح اشارے ملے ہیں کہ انڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

سکھوں کا کہنا ہے کہ کینیڈین حکومت کے بیانات سے ان کے مؤقف کی توثیق ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جمعے کو ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے پیلے رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے جس پر نیلے رنگ سے ’خالصتان‘ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ مظاہرین وزیراعظم نریندر مودی کی مخالفت میں ’دہشت گرد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
سماجی کارکن ہریندر سوہی نے کہا کہ کینیڈا کا یہاں رہنے والی انڈین کمیونٹی کے لیے عوامی سطح پر ’خطرے‘ کا اظہار کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔
’یہ بہت ہی چونکا دینے والی بات ہے کہ ہم کینیڈین شہریوں کو ایک غیرملکی حکومت کے خوف میں رہنا پڑ رہا ہے۔‘
خالصتان کی مہم کا آغاز انڈیا کی 1947 میں آزادی سے ہوتا ہے تاہم ملک کے اندر تحریک کے لیے کسی بھی قسم کی حمایت کو حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے۔
خالصتان حامی تحریک ’سکھس فار جسٹس‘ کے ڈائریکٹر جتندر سنگھ گریوال کے خیال میں نریندر مودی کی حکومت اس تحریک کی بیرون ملک حمایت کو بھی خاموش کروانے کے لیے پرعزم ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ وہاں رہنے والی سکھ کمیونٹی تحریک کو ہوا دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا ’اگر آپ کینیڈین سکھ، امریکی سکھ یا برطانوی سکھ کو کھل کر بات کرنے دیں گے تو بالآخر پنجابی سکھ بھی کہیں گے کہ ہم کیوں نہیں کھل کر بات کر سکتے۔‘
جتندر سنگھ گریوال نے جسٹن ٹروڈو کی جانب سے عوامی سطح پر کیے جانے والے انکشافات اور انڈین سفارتکاروں کو نکالنے کے اقدامات کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مزید بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹورنٹو اور وینکوئر میں موجود انڈین قونصل خانے سکھوں کے خلاف پرتشدد سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔ 
کینیڈا میں تقریباً  سات لاکھ 77 ہزار سکھ مقیم ہیں جو کل آبادی کا 2 فیصد ہیں۔ انڈیا کے بعد کینیڈا میں سکھوں کی سب سے بڑی کمیونٹی مقیم ہے۔

کینیڈا نے ہردیپ سنگھ کے قتل کا الزام انڈین حکومت پر عائد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کینیڈا میں سکھوں کی اکثریت مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہے بالخصوص ٹورنٹو اور وینکوئر کے ارد گرد اور کمیونٹی کا ووٹ قومی انتخابات میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
گزشتہ سال جسٹن ٹروڈو نے ہردیپ سنگھ کے قتل میں پہلی مرتبہ انڈین ایجنٹ کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس کے متعلق خارجہ پالیسی امور پر سابق حکومتی مشیر عمر عزیز کا کہنا ہے کہ اندرونی سیاست نے وزیراعظم کی سکھوں سے متعلق پالیسی کو اثر انداز کیا ہے۔
سروے پولز میں جسٹن ٹروڈو کی حمایت میں کمی دکھائی دی ہے جبکہ آئندہ چند ماہ میں کینیڈا میں عام انتخابات بھی متوقع ہیں۔ اس موقع پر اس حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا جسٹن ٹروڈو کے بیانات کا مقصد سکھ کمیونٹی کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔

شیئر: