ریشما پٹھان ایک قدامت پسند مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
گذشتہ دنوں ریئلٹی شو ’کون بنے گا کروڑپتی‘ کے ایک سپیشل پروگرام میں ہوسٹ اور معروف اداکار امیتابھ بچن نے ’ڈریم گرل‘ ہیمامالنی کو مدعو کیا تھا۔ اس شو کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک ایسی اداکارہ کو بھی مدعو کیا گیا جنھوں نے فلم شعلے میں ہیما مالنی کے لیے سٹنٹ کیا تھا۔
جو فلموں کی باریکیوں کو جانتے ہیں اور فلم میکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہو گا کہ بڑے اداکاروں کے لیے ان کا باڈی ڈبل ہوتا ہے جو ان کے لیے خطرناک کام انجام دیتا ہے۔
چنانچہ جس اداکارہ کو شو کے سیٹ پر مدعو کیا گیا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمت و حوصلے کا پیکر ریشما پٹھان تھیں۔
ریشما پٹھان نے اپنے انداز میں ہیما مالنی کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے کبھی سیٹ پر انہیں جونیئر آرٹسٹ نہیں سمجھا بلکہ ایک فنکار کے طور پر ان کے ساتھ سلوک کیا اور یہ ان کی میٹھی یادوں میں سے ایک ہے۔
یوں تو انڈین سنیما میں پہلی سٹنٹ وومن کے طور پر میر آن ایوانز کو یاد کیا جاتا ہے لیکن وہ در اصل لیڈ اداکارہ تھیں اور وہ خطرناک سے خطرناک سین خود کرتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں انڈین سینما میں ’فیئرلیس نادیہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور وہ آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں پیدا ہوئیں اور جب انڈیا آئیں تو یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔
ہم فیئرلیس یعنی بے خوف نادیہ پر کبھی اور بات کریں گے آج ہم ریشما پٹھان کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جنھیں شعلے میں ان کے خطرناک کرتب کے لیے ’شعلے گرل‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کی زندگی پر اسی نام سے ایک فلم بھی بنی ہے۔
گذشتہ سال انھیں ’سینما کے 110 سال بے مثال‘ کے دوسرے سیزن میں ریئلٹی شو ’انڈیاز بیسٹ ڈانسر‘ سیزن تھری میں انڈیا کی پہلی سٹنٹ خاتون کے طور پر سراہا گیا اور ان کا اعزاز و اکرام کیا گیا۔
گولڈن گلوب ایوارڈز کی رپورٹ کے مطابق ریشما پٹھان ایک قدامت پسند مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ان کے گھر کے آس پاس کی گلیاں اور راستے ان کے کھیل کے میدان تھے اور وہ مجسموں پر چڑھ کر اور ہر قسم کے خطرناک کرتب بے خوفی دکھاتی تھیں۔
انتہائی غربت میں ان کی زندگی بسر ہو رہی تھی۔ والد بیمار تھے کہ ایک دن ان کی ماں کو کپڑے، چاول اور دیگر اشیاء کی چوری کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا اور پھر گھر کی ذمہ داری اس 13-14 سالہ نوجوان ریشما پر آ گئی۔
ان کے ایک پڑوسی اسٹنٹ ڈائریکٹر ایس عظیم تھے اور وہ ان کے خاندان کے حالات سے واقف تھے اور وہ ریشما کے کرتبوں سے بھی واقف تھے چنانچہ انھوں نے 14 سالہ لڑکی کو اسٹنٹ وومن بننے کی تجویز پیش کی۔
ریشما کے والد نے نے پہلے تو اعتراض کیا لیکن پھر حالات کی نزاکت کے تحت وہ خاموش رہے۔ ریشما پٹھان نے فلم فیئر میگزین کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے والد ان کی حفاظت کے پیش نظر اس پیشے کے خلاف تھے کیونکہ ان کے نزدیک جان کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا۔
لیکن ریشما کا مقصد بنیادی طور پر اتنا پیسہ کمانا تھا کہ ان کا خاندان ایک باوقار زندگی گزار سکے۔
اس زمانے میں مرد ہی خواتین کے لیے خطرناک کام کیا کرتے تھے اور ان کا باڈی ڈبل ہوا کرتے تھے لیکن ریشما کے میدان میں آنے سے ان میں ناراضگی پھیل گئی۔
ریشما بتاتی ہیں کہ وہ اب تک کوئی 400 سے زیادہ فلموں میں کام کر چکی ہیں لیکن انھوں نے اداکارہ لکشمی چھایا کے لیے فلم ’ایک کھلاڑی باون پتے‘ میں اپنا پہلا سٹنٹ کیا۔ یہ ایک رقص سیکوئنس تھا جس میں اداکارہ گرتی ہے اور پھسل کر سٹیج سے نیچے جاتی ہے۔
پٹھان نے ایک ہی ٹیک میں اس سٹنٹ کو مکمل کیا اور اس طرح ان کی پوزیشن مستحکم ہو گئی۔
وہ ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ ’میں نے 175 روپے یومیہ اجرت سے شروعات کی تھی۔ میرے ہاتھ میں 100 روپے آتے تھے۔ اور باقی ٹرانسپورٹ میں جاتے تھے جس سے دھوکہ کھا گئی تھی۔ لیکن میں خوش تھی کیونکہ اگر میں گریجویٹ بھی ہوتی تو بھی میں اتنی رقم کمانے کے قابل نہ ہوتی۔ اور اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنا میری پہلی ترجیح تھی۔‘
اس فلم کے بعد انہوں نے اداکارہ مینا کماری، ریکھا، ہیما مالنی، موسمی چیٹرجی، شرمیلا ٹیگور، نیتو سنگھ اور ممتاز جیسی چلبلی اداکارہ کے لیے بھی باڈی ڈبل کا کام کیا۔
ہندی اخبار دینک بھاسکر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریشما پٹھان نے بتایا کہ انھیں سیٹ پر کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا رہتا تھا۔
ریشما نے کہا کہ ’بہت چوٹیں آتی تھیں۔ زمین پر پڑے کنکر اور پتھر کو صاف کرنے کے بعد بھی ٹھوس زمین پر گرنا پڑتا تھا۔ اونچائی سے کودنے کے منظر میں کچھ لوگ جال پکڑے نیچے کھڑے ہوتے اور پھر سٹنٹ آرٹسٹ کو اوپر سے چھلانگ لگانا ہوتا تھا۔‘
’ہمارا جسم ہر وقت زخمی رہتا تھا۔ لیکن ہم کچھ نہ کر سکتے تھے۔ اگر ہم نے احتجاج کیا ہوتا تو ہمیں کون کام دیتا؟ ہمارا کام سٹنٹ کرنا تھا جس میں چوٹیں ناگزیر تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ انھیں بعض اوقات جھاڑیوں میں کپڑے بدلنے پڑتے تھے، وہاں کیڑے مکوڑوں سے نمٹنا پڑتا تھا۔ ریشما نے بتایا کہ ایک بار انھیں ایسی چوٹ لگی کہ وہ ٹھیک سے رفع حاجت بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے دور میں سٹنٹ فنکاروں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور حفاظتی سہولیات بھی کم دستیاب تھیں۔ مرد سٹنٹ آرٹسٹ تو پھر بھی کسی طرح کام چلا لیتے تھے لیکن ان کے لیے زیادہ پریشانیاں تھیں۔ وہ چھیڑ چھاڑ کی واردات کا سختی سے مقابلہ کرتی تھیں۔
ایک بار ریشما کو سبھاش گھئی پر غصہ آگيا۔ دراصل سبھاش گھئی فلم ’قرض‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ حادثے کا منظر ٹرک سے دکھایا جانا تھا۔ ریشما فلم کی اداکارہ کی باڈی ڈبل تھیں۔
سبھاش گھئی نے ڈرائیور سے کہا کہ جب ٹرک ریشما کے قریب آئے گا تو وہ اشارہ کريں گے۔ سگنل دیکھ کر سمجھ لیں کہ ٹرک کو روک دینا ہے۔ شاٹ شروع ہوا لیکن سبھاش گھئی نے اشارہ نہیں کیا۔ ٹرک ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی اور ریشما کو ٹکر مار دی۔ ریشما بہت دور جا گریں۔ ان کی کمر میں گہری چوٹ آئی۔ انہوں نے سب کے سامنے سبھاش گھئی پرناراضگی ظاہر کی۔ ریشماں کافی عرصے تک کمر کی اس چوٹ سے نبرد آزما رہیں۔
فلم شعلے میں تانگے پر جو بھاگنے اور پکڑنے کا لمبا سیکونس ہے اس کے بعد انھیں ’شعلے گرل‘ کا نام دیا گیا۔ پٹھان پوری رفتار سے تانگا چلا رہی تھیں کہ وہ ایک چٹان سے ٹکرا گیا اور اس کے پہیے نکل گئے جس سے وہ گر کر زخمی ہو گئیں۔ انھیں ٹانکے بھی لگے اور انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن تنبیہ کے باوجود وہ فوراً کام پر واپس چلی آئيں اور اس طرح یہ سیکوئنس مکمل کیا۔
1980 میں انہوں نے سٹنٹ ڈائریکٹر شکور پٹھان سے شادی کی اور اچانک ان کی دنیا اس وقت تباہ ہوگئی جب 1984 میں فلموں میں سٹنٹ پر پابندی کا قانون پاس ہوا، کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بچت ختم ہو رہی تھی لیکن خوش قسمتی سے ان کی بچانے کی عادت اس مشکل وقت میں کام آئی۔
سٹنٹ کے کام سے ریٹائرمنٹ لے کر انہوں نے فلم انڈسٹری کو نہیں چھوڑا۔ وہ اب بھی کام کرتی ہیں۔ ریشما پٹھان سٹنٹ آرٹسٹ یونین میں شامل ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔