مشرق وسطٰی نئے امریکی صدر کے ایجنڈے پر کیوں حاوی رہے گا؟
مشرق وسطٰی نئے امریکی صدر کے ایجنڈے پر کیوں حاوی رہے گا؟
بدھ 6 نومبر 2024 8:19
امریکہ میں نئے صدر کے انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ جاری ہے اور دوسری جانب مشرق وسطٰی بھی یہ جاننے کا منتظر ہے کہ کون جیت رہا ہے اور اس جیت کے مشرق وسطٰی کے لیے کیا معنی ہوں گے۔
مشرق وسطٰی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات 1945 میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ اور سعودی شاہ عبدالعزیز بن سعود کے درمیان نہر سویز میں امریکہ کے جنگی جہاز پر ملاقات اور تاریخی مذاکرات کے بعد سے خاصے پیچیدہ رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سی این این اور امریکہ کے بعض دوسرے بڑے چینلز کا کہنا ہے کہ الیکشن کے مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد فاتح کا اعلان کر دیا جائے گا۔
بہرحال اوول آفس میں جو بھی بیٹھے، تاہم ٹیبل پر پڑی ٹریز میں سب سے نمایاں نام ’مشرق وسطٰی‘ کا ہو گا یہ سب سے زیادہ توجہ کا طالب بھی ہو گا اور وہاں بیٹھنے والے نئے صدر کے ذہن پر بھی حاوی رہے گا۔
یہ بات بھی بہت اہم ہو گی کہ مشرق وسطٰی سے متعلق مسائل سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ چیلنجز کے اس مجموعے سے کچھ ایسا بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو اس سے قبل کوئی امریکی صدر نہیں پا سکا یا پھر پیچیدہ اور تباہ کن مسائل بڑھ بھی سکتے ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل
نومبر 2016 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ’میں ایسا شخص بننا پسند کروں گا جو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر دے۔‘
اس پر بہت سے لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ ناممکن ہے اور وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔
اس کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں ایسا کر سکتا ہوں اور میرے پاس اس کی وجہ بھی ہے۔‘
ماضی قریب سے عیاں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ویسا نہیں کر پائے، جیسا کہا تھا۔
جمی کارٹر جنہوں نے کیمپ ڈیوڈ میں 1979 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی قیادت کی اور حالات امن معاہدے پر منتج ہوئے، سے لے کر بعد میں آنے والے صدور مشرق وسطٰی کے حالات کی طرف متوجہ ہوتے رہے ہیں۔
بہرحال ابھی تک سفارتی حلقوں میں فسلطین اور اسرائیل کے معاملے کو ’امن کے لیے امریکی کوششوں کا قبرستان‘ قرار دیا جاتا ہے۔
سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ جاری ہے جب کہ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے ساتھ بھی لڑائی ہو رہی ہے اور بحران کو کافی شدید سمجھا جا رہا ہے۔
الیکشن مہم کے دروان بھی مشرق وسطٰی کا تذکرہ سننے کو ملتا رہا تاہم امیدواروں کی جانب سے اسرائیل یا فلسطین کے حق میں کی جانے والی باتیں اب بھلا دی جائیں گی اور اب سب سے اہم بات ایسے محتاط عملی اقدامات ہوں گے جن سے غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل سمیت دیگر مسائل حل ہوں۔
پچھلی بار ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعلقات کے قیام میں پیش رفت کی۔ 2020 میں ان کا ایک بڑا قدم سعودی عرب کو بھی اس سلسلے میں شامل کرنے کی کوشش تھی جو پوری نہیں ہو پائی تھی اور مملکت نے واضح کیا تھا کہ ’فلسطینی ریاست کے لیے ایک بامعنی طریقہ کار کے آغاز‘ کی شرط پوری کرنا ہو گی۔ اور 2025 میں بھی یہ کام ٹرمپ انتظامیہ کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کملا ییرس جیتتی ہیں تو ان کے لیے بھی بائیڈن انتظامیہ کے سائے نکلنے کے لیے اہم موقع ہو گا جو اپنی کلائنٹ ریاست اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہی، اس سے مشرق وسطٰی میں بحران مزید گہرا ہوا اور خطے میں امریکہ پر اعتماد کے تاثر کو نقصان پہنچا ہے۔
مغربی کنارہ
اگر امریکہ نے فلسطین اور لبنان میں بننے والی صورت حال پر تعصب پر مبنی رویہ اپنایا ہے تو بائیڈن انتظامیہ نے بھی مغربی کنارے میں انتہاپسند یہود آبادکار گروپوں کی اشتعال انگیزی اور دوسری سرگرمیوں پر آنکھیں بند رکھیں۔
فروری میں وائٹ ہاؤس نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کیا جس میں ’مغربی کنارے میں امن، سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے والے افراد پر پابندیاں پر پابندیاں عائد کی گئیں، تاہم اس کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک سکا اب ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے اور خطے کے استحکام کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
ایران
ایران 1979 کے انقلاب سے لے کر امریکی انتظامیہ کے لیے کانٹا رہا ہے، جس کی جڑیں 1953 میں اس وقت کے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کو سی آئی اے کے ذریعے نکلوائے جانے میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔
اگلے صدر کو جن ایشوز کا سامنا ہو گا ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ کیسے ڈیل کئا جائے جو جولائی میں منتخب ہوئے اور ایسے اشارے بھی دے چکے ہیں وہ علاقئی اتحادیوں اور مغربی ممالک کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
خطے میں ایران کی پراکسیز کا خاتمہ ان اہم نکات میں شامل ہو سکتا ہے جو امریکہ اور ایران کے درمیان آگے بڑھائے جا سکتے ہیں کیونکہ ان پراکسیز کی وجہ سے مشرق وسطٰی میں بہت زیادہ خلل پڑا ہے۔