طالب علم سے مذاق استاد کو عدالت لے گیا، کیا سزا ہو گئی؟
استاد نے مذاق میں طالب علم کے بازوپکڑ کر کہا ’تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو‘ (فوٹو ایکس )
ماہرقانون فیصل الرمیح کا کہنا ہے کہ بعض اوقات محض مذاق بھی انسان کو مشکل میں مبتلا کردیتا ہے ۔ قانونی امور سے ناواقفیت عام افراد کے لیے دشواری کا باعث بن جاتی ہے۔
تواصل نیوز کے مطابق نجی ٹی وی ’بدایہ‘ کے پروگرام میں ماہر قانون الرمیح نے ایک واقعہ بیان کیا جس میں استاد کا طالب علم کے ساتھ کیا گیا مذاق نے اسے عدالت میں کھڑا کردیا۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے قانون دان کا کہنا تھا کہ تدریس کے شعبے سے گزشتہ 30 برسوں سے منسلک ایک استاد کو اس وقت انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جب اسے پولیس اسٹیشن میں طلب کرکے بتایا کہ اس کے ایک طالب علم نے اس کے خلاف جسمانی ایذا کی رپورٹ درج کرائی ہے۔
استاد کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کس طالب علم نے اس کے خلاف یہ یہ رپورٹ درج کرائی ہے جب انسپکٹر نے اسے طالب علم کا نام اور شکایت کے بارے میں بتایا تو اسے یاد آیا کہ وہ تو محض ایک مذاق تھا۔
استاد نے انسپکٹر کو بتایا کہ جس طالب علم نے اس کے خلاف رپورٹ درج کرائی ہے اس کے ساتھ کلاس میں سب طلبا کے سامنے مذاق کرتے ہوئے دراصل اسکی تعریف کی تھی۔
استاد کا کہنا تھا کہ اس نے طالب علم کے بازوں کو پکڑ کریہ کہا تھا کہ تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو اس لیے تمہارا جسم بھی مضبوط ہے۔
ماہرقانون کا مزید کہنا تھا کہ کلاس میں پیش آنے والا واقعہ کسی کو یاد نہیں رہا کیونکہ یہ ایک مذاق تھا اور اسے دو دن گزر چکے تھے جبکہ واقعے کے تیسرے دن رات کے وقت استاد کو تھانے میں طلب کرکے اسے شکایت کے بارے میں مطلع کیا گیا۔
تھانے میں بھی استاد نے وہی کچھ بتایا جو کلاس میں ہوا تھا جس پر انسپکٹر نے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرکے کیس پراسیکیوشن کے ادارے کو بھیج دیا جہاں سے استاد کو طلب کیا گیا تمام تفصیلات سننے کے بعد مقدمہ سول کورٹ میں جمع کردیا گیا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران قاضی نے استاد سے واقعے کی تفصیلات دریافت کیں جس پر استاد نے تمام واقعہ من وعن بیان کردیا۔ قاضی نے دریافت کیا کہ طالب علم کو اس کے دونوں بازوں سے پکڑا تھا جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں درد ہو گیا۔ عدالت میں ہسپتال کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
قاضی نے استاد کے بیان اور میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر استاد کے خلاف قانون کے مطابق دو برس قید اور ایک لاکھ ریال جرمانے کا حکم سنا دیا۔
ماہر قانون الرمیح کا یہاں کہنا تھا کہ اگر اس موقع پر قانونی ماہر وہاں ہوتا تو فوری طورپرجرح کر کے ثابت کرسکتا تھا کہ اس واقعے میں کیا کمی ہے اور کون سا نکتہ صرف نظر ہو گیا ہے۔
عدالتی فیصلے پر نہ صرف استاد بلکہ طالب علم اور اسکے والد بھی پشیمان تھے کیونکہ وہ اتنا آگے نہیں جانا چاہتے تھے البتہ قاضی کی جانب سے فیصلہ صادر کردیا گیا تھا۔
مقدمے کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس میں ماہرقانون نے یہ نکتہ عدالت میں پیش کیا کہ میڈیکل رپورٹ جو عدالت میں جمع کرائی گئی ہے وہ وقوعہ کے دو دن بعد کی ہے جبکہ واقعے کے دو روز تک متاثرہ طالب علم اسکول جاتا رہا اور اسے کوئی شکایت نہیں تھی۔
قانون دان نے یہ ثابت کیا کہ استاد کےمذاق کا طالب علم کو ہونے والی تکلیف سے کوئی تعلق نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اسی دن شکایت درج کی جاتی اور میڈیکل رپورٹ بھی اسی دن کی ہونا ضروری ہے۔
الرمیح کا مزید کہنا تھا کہ اپیل میں پیش کی گئی دلیل ٹھوس تھی جس پرعدالت نے بالاخیر استاد کو مقدمے سے بری کر دیا۔ تاہم یہ واقعہ اس لیے بیان کیا گیا کہ ہر شخص قانونی باریکیوں سے واقف نہیں ہوتا۔