’جو غیرمعمولی سمجھا جاتا تھا وہ اب سعودی عرب میں معمول کی بات بن گئی ہے‘
’جو غیرمعمولی سمجھا جاتا تھا وہ اب سعودی عرب میں معمول کی بات بن گئی ہے‘
پیر 25 نومبر 2024 8:03
امریکی انٹیلی جنس کے سابق افسر نورمن روول نے پروگرام فرینکلی سپیکنگ میں شرکت کی۔ فوٹو: عرب نیوز
سعودی عرب میں آنے والی تبدیلی اگرچہ عالمی نوعیت کے تفریحی پروگراموں، مصنوعی ذہانت اور گرین انرجی میں سرمایہ کاری کے علاوہ گیگا پروجیکٹس سے واضح ہے اور دنیا بھر میں مملکت کے تصور اور اثر و رسوخ کو ایک نئے انداز میں پیش کرتی ہے تاہم مشرق وسطیٰ کے ماہر نورمن روول کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے عزائم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے مزید بھی کیا جا سکتا ہے۔
عرب نیوز کے پروگرام فرینکلی سپینگ میں بات کرتے ہوئے امریکی انٹیلی جنس کے سابق افسر نورمن روول نے کہا کہ غزہ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عارضی تعطل کے باوجود سفارتی سطح پر سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات آگے بڑھتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا، ’سچ بتانا چاہیے، مجھے سعودی عرب میں بہت کچھ غیرمعمولی ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور جو غیرمعمولی سمجھا جاتا تھا وہ اب معمول کی بات بن گئی ہے۔‘
’ترقی، استحکام اور بین المذاہب تعلقات کے عالمی مرکز کے طور پر ابھرنے کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کے پاس وہ سب کچھ ہونا چاہیے جو اس (مقصد) کے لیے ضروری ہے۔‘
نورمن روول نے کہا کہ سعودی عرب ’انڈیا اور افریقہ کے درمیان اور یورپ اور ایشیا کے درمیان عالمی تجارت اور سماجی تبادلے کے بہت سے راستوں کے سنگم میں واقع ہے۔‘
نورمن رول نے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور سعودی عرب کے اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے مزید مضبوط بیانیے کی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا اور ’فرینکلی سپیکنگ‘ جیسے میڈیا پروگراموں میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا جو مملکت کے وژن کو ’عالمی برادری تک انگریزی میں‘ پہنچاتے ہیں۔
’دنیا کو اس کی مزید ضرورت ہے، نہ صرف یہ سمجھنے کے لیے کہ مملکت اپنے طور سے کیا کر رہا ہے، بلکہ یہ عزائم عالمی معاشرے اور عالمی معیشت کو کس شکل میں ڈھالیں گے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی گرین انرجی میں سرمایہ کاری کو سمجھنا چاہیے۔ یہ گلوبل نارتھ اور گلوبل ساؤتھ کے ترقی پذیر ممالک کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔‘
ریاض سیزن 2024 کے فیشن شو میں غیرملکی ماڈلز نے بھی شرکت کی۔ فوٹو: عرب نیوز
نورمن روول نے خواتین کو بااختیار بنانے اور ثقافتی تبادلے جیسے اہم مسائل پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملکی سرحدوں کے پار بھی پہنچایا جا سکتا ہے، خطے اور یہاں تک کہ دوسرے براعظموں میں ہونے والی پیشرفت کو بھی اثرانداز کیا جا سکتا ہے۔
’خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنا صرف سعودی مسئلہ نہیں ہے بلکہ میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ افغانستان اور افریقہ بھی پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘
سعودی عرب کے وژن 2030 کے ایک اہم منصوبے ’نیوم سٹی‘ پر بات کرتے ہوئے نورمن روول نے کہا کہ یہ اقدام سعودی عرب کے مستقبل کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔
بحیرہ احمر کے ساحل پر قائم ہونے والے نیوم شہر کا 500 ارب ڈالر کا یہ منصوبہ آبادی میں اضافے اور پائیداری جیسے مستقبل کے مسائل سے نمٹنے کے لیے سٹریٹیجک حیثیت رکھتا ہے۔
’نیوم ایتھنز سے 90 منٹ اور سوئز کنال سے 60 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔۔۔ جب لوگ نیوم کی بات کرتے ہیں، جو مغرب میں ’دا لائن‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ نیوم کا سائز بیلجیم یا میساچیوسٹس کے برابر ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوگا اور شاندار ہوگا۔‘
نورمن روول نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے سعودی عرب اور امریکہ کے سفیروں کے کام کو سراہا۔
’مائیکل رتنی نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ عرب ثقافت اور زبان پر عبور رکھتے ہیں، بلکہ ایک ایسے شخص ہے جو اس علاقے کا گہرا علم اور سمجھ رکھتے ہیں اور احترام بھی کرتے ہیں۔‘
بحیرہ احمر پر نیوم سٹی منصوبہ وژن 2030 کا اہم حصہ ہے۔ فوٹو: عرب نیوز
’اسی طرح سے واشنگٹن میں سعودی سفیر ریما بنت بندر جو انتہائی قابل ہیں، وہ دونوں ممالک کے لیے قومی اثاثہ ہیں اورایسے وقت میں جب ہم ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں۔‘
نورمن روول نے امریکی ایگزیکٹیوز کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی ترغیب دینے پر دونوں ممالک کے سفیروں کو سراہتے ہوئے کہا ’ایسے ایگزیکٹیوز کے ساتھ ہونے والی چند ملاقاتوں میں موجود رہا ہوں۔ اگر وہ پہلی مرتبہ مملکت آئے ہیں تو وہ خوش اور حیران ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ اکثر نہیں بھی آتے تب بھی وہ خوش اور حیران ہوتے ہیں۔‘
آخر میں نورمن روول نے کہا کہ ’ہم سب کو جس کامیابی کی امید ہے وہ کوئی کاروباری معاہدہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک پارٹنرشپ ہے جو علاقائی استحکام اور ترقی کے لیے مملکت اور امریکہ کے وسیع تر عزائم کے لیے کی گئی ہے۔‘