Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیسی ہو سکتی ہے؟

امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی تبدیل ہونے جا رہی ہے۔
چونکہ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطٰی میں غیرمعمولی تناؤ اور غیر یقینی صورت حال کا دور دورہ ہے، اس لیے خطے کے حکام ان علامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ نئی ریپلبکن انتظامیہ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کو کس طرح استعمال میں لا سکتی ہے۔
عرب دنیا میں وسیع تجربہ رکھنے والے امریکہ کے سینیئر معروف سفارت کار رابرٹ فورڈ نے ایک تفصیلی انٹرویو میں مشرق وسطیٰ کے لیے توقعات کا اظہار کیا ہے جس سے عیاں ہے کہ کس قسم کی توقعات باندھی جا سکتی ہیں اور وہ کس قدر پوری ہو سکتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی جنگیں خصوصاً غرہ اور لبنان میں جاری جنگیں اس وقت بین الاقوامی طور پر مباحث کا حصہ ہیں۔
خاص طور پر سات اکتوبر 2023 سے، جب حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیلی نے غزہ میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رابرٹ فورڈ نے کہا کہ ’منتخب صدر ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کے حوالے سے جو کہہ چکے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دن میں جنگ ختم کر سکتے ہیں۔‘

غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ ایک برس سے جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ وہ ایک ہفتے میں بھی ایسا کر پائیں، مگر وہ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے بات چیت پر زور دے سکتے ہیں، جہاں تک غزہ اور لبنان کی جنگ کا تعلق ہے تو صورت حال پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی اس صلاحیت کو استعمال کریں گے۔‘
رابرٹ فورڈ نے یہ بھی کہا کہ ’اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل کو ریپبلکن پارٹی کے اندر بہت کم حمایت حاصل ہے، جس سے یہ امکان بہت کم ہو جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس معاملے کے حوالے سے اسرائیل پر دباؤ ڈالے گی۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہ کہا کہ ’پچھلے 15 برس کے دوران ریپبلکن پارٹی نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بہت کم حمایت ظاہر کی، اس لیے پارٹی کے اندر کوئی ایسا دھڑا نہیں جو اس کے لیے دباؤ ڈال سکے۔‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’ریپبلکن پارٹی کے اندر ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کے ایسے سخت گیر سیاست دانوں کی حمایت کرتے ہیں جو فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کر چکے ہیں۔‘
موجودہ سیاسی حالات میں جب سعودی عرب اور دنیا، اسرائیل کے غزہ کے حملے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت پر سخت اور ایک جیسا موقف رکھتی ہے اور فلسطینی ریاست کا قیام خطے کے حکام کے لیے ترجیح بن گیا ہے۔

مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگ کے حوالے سے کچھ ہدایات بھی جاری کی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سعودی عرب ان تمام کوششوں کی قیادت کر رہا ہے جو بین الاقوامی طور پر دو ریاستی حل کے لیے ہو رہی ہیں۔ ستمبر میں مملکت کی حکومت نے فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں کی قیادت کرتے ہوئے عالمی اتحاد تشکیل دیا تھا۔
رابرٹ فورڈ کا خیال ہے کہ  اس معاملے پر ہونے والی کوئی بھی پیشرفت خلیج کی قیادت کی جانب سے آئے گی۔
’صرف وہ لوگ ڈونلڈ ٹرمپ پر ذاتی طور پر اثرانداز ہو سکیں گے، وہ دراصل خلیج کی قیادت ہے۔ اگر وہ فلسطین کو ترجیحی بنیادوں پر رکھیں تو شاید وہ اس پر غور کریں گے، اور اس کے لیے میں ’شاید‘ کے لفظ پر زور دیتا ہوں۔‘
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتین یاہو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خواہاں ہیں لیکن مملکت نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ جب تک وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے، اس وقت تک تعلقات کا معمول پر آنا ممکن نہیں ہو گا۔
رابرٹ فورڈ کے مطابق ’پہلی بات یہ ہے کہ میرے خیال میں آنے والے دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب سے پوچھے گی کہ آیا وہ اب بھی فلسطینی ریاست پر اصرار کرتی ہے یا نہیں یا پھر کم سے کم فلسطینی ریاست کے لیے ٹھوس اقدامات پر، جو اس پیکیج ڈیل کا حصہ ہو جو امریکہ اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے سے متعلق ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ٹرمپ کے ساتھی اس معاہدے کے لیے فلسطین کے حوالے سے کوئی شرط نہیں رکھیں گے کیونکہ زیادہ اسرائیلی اسے قبول نہیں کریں گے۔‘
امریکہ عرصہ دراز سے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا آ رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پچھلے برس جب اسرائیل نے حماس اور فلسطین کے عسکریت پسندوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا، تو اسرائیل نے امریکہ سے 10 ارب ڈالر کی ہنگامی مدد کی درخواست کی۔

امریکہ میں کام کرنے والے آزاد تھیک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز کا اندازہ ہے کہ امریکہ نے پچھلے برس اکتوبر سے اسرائیل کو کم سے کم ساڑھے 12 ارب ڈالر کی فوجی مدد فراہم کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مبینہ طور پر نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے تک غزہ میں جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں، جس میں اب تک 43 ہزار چار سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر عام شہری شامل ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ان پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی؟
اس سوال پر رابرٹ فورڈ نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے امکان کو مسترد کیا اور کہا کہ ’اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہے کہ خصوصی طور پر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ 2025 میں اسرائیل کے ہتھیاروں پر پابندی عائد کریں گے۔‘
انہوں نے اسرائیل کو امریکہ کی امداد کے حوالے سے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ بیرونی امداد کو پسند کرتے ہیں وہ امداد کو امریکی اخراجات اور وسائل کے طور پر دیکھتے ہیں جنہیں وہ امریکہ میں ہی رکھنا پسند کریں گے۔‘
رابرت فورڈ نے ’طویل مدتی‘ منظر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’میں تصور کر سکتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی سالانہ مدد کو کم کرنے کی راہ تلاش کر سکتے ہیں جو کہ چار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔‘
تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’لیکن میرا نہیں خیال کہ اس کو اس طرح سے کریں گے کہ اسرائیل کے لیے خطرہ بنے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ زیادہ تر ممالک کے لیے امداد کا سلسلہ کم کر دیں۔
مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا تنازع جو اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہے اور 13 مہینے سے جاری ہے۔ اس میں جنگجوؤں سمیت تین ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور ملک کے جنوبی حصے میں 12 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

رابرٹ فورڈ کا کہنا تھا کہ اگرچہ ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کی بات کر چکے ہیں مگر مجموعی طور پر ایسا دکھائی نہیں دیتا (فوٹو: اے پی)

حزب اللہ کے حملوں سے اسرائیل میں 30 فوجیوں سمیت 72 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس عرصے کے دوران 60 ہزار بے گھر بھی ہوئے۔
اس جنگ کے خاتمے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک نیا آپریشن کرنے جا رہا ہے جس میں لبنان بھر اور شام کے کچھ حصوں میں حزب اللہ کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب حزب اللہ نے جنوبی اسرائیل میں راکٹ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
فورڈ کو لگتا ہے کہ لبنان کے حوالے سے امریکہ ابتدائی طور پر بات چیت میں شامل ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ آغاز ٹرمپ اور لبنان کے درمیان خاندانی تعلق سے ہو گا۔
 تاہم ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ لبنان نئی انتظامیہ کے ایجنڈے میں زیادہ اوپر نہیں رہے گا۔
انہوں نے مساد بولاس، جو کہ لبنانی امریکی بزنس مین ہیں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ کی بیٹیوں میں سے ایک کے شوہر اور ان کے سسر کا تعلق لبنان سے ہے اور ان کے بیٹے مائیکل سے دو سال قبل ٹرمپ کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے اور انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران عرب امریکی کمیونٹی کے سفیر کے طور پر کام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس خاندان کے ساتھ ٹرمپ کا قریبی تعلق ہے اور ہم ٹرمپ کی پچھلی انتظامیہ کے دور میں دیکھا، اس لیے امکان ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو بات چیت میں شامل کیا جائے۔‘

شیئر: