Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ضرورت برائے رشتہ، وی پی این سبسکرپشن اور تیز انٹرنیٹ شرط‘

پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین کے مطابق واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی سروسز میں خلل پیدا ہوا ہے اور متعدد وی پی اینز بھی کام نہیں کر رہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروسز متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انٹرنیٹ صارفین شکایت کرتے دکھائی دیے کہ انٹرنیٹ کی رفتار بہت سست ہے اور واٹس ایپ پر آڈیو میسجز، تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے اور موصول کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
جہاں واٹس ایپ پر میڈیا فائلز متاثر ہیں صارفین کو فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام اور ٹک ٹاک استعمال کرنے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔
صارفین کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں نہ صرف موبائل ڈیٹا بلکہ وائی فائے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے میں دکت کا سامنا ہے۔ 
واضح رہے پاکستان میں ایکس سروسز گزشتہ کئی ماہ سے معطل ہیں اور صارفین وی پی اینز کے ذریعے ایکس استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم حکومت کے وی پی اینز کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے ہی صارفین وی پی اینز کی بندش کی شکایات کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق صارفین کو 30 نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ وہ اپنے وی پی اینز رجسٹر کروا سکتے ہیں کیونکہ یکم دسمبر سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز غیر فعال ہو جائیں گے۔
یکم دسمبر کو پی ٹی اے نے وضاحت دی تھی کہ ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود غیررجسٹرڈ وی پی اینز کو بند نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب صارفین متعدد سوشل میڈیا ایپس پر یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے وی پی اینز کام نہیں کر رہے۔ 
ایک اور زیر غور بات یہ ہے کہ پاکستان میں حال ہی میں پی ٹی اے نے ویب مینجمنٹ سسٹم یعنی فائر وال کو توسیع دی ہے اور یہ ممکن ہے کہ حالیہ سوشل میڈیا ایپس میں پیدا ہونے والا خلل اس ہی کی بدولت ہے۔ 
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ملک بھر میں ڈیٹا سروس مکمل فعال ہے اور تمام ایپس درست کام کر رہی ہیں۔
فائر وال کے حوالے سے شزا فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’فائر وال کا ہوا بنایا گیا ہے جبکہ یہ ایک ویب مینجمنٹ سسٹم ہے اور حکومت کو بہتر سے بہتر سائبر سکیورٹی سسٹم کی ضرورت ہے‘۔
ایک جانب حکومت اور پی ٹی اے کی وضاحتیں آئیں وہیں صارفین سوشل میڈیا پر اپنا ردعمل بھی دے رہے ہیں۔
ایک صارف نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’حکومت پاکستان انٹرنیٹ سے کھیلنا بند کرے۔ لگتا ہے فائروال مکمل طور پر فعال ہو چکی ہے، کوئی بھی ملک انٹرنیٹ اور وی پی اینز پر پابندی کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا، ساری آئی ٹی انڈسٹری انٹرنیٹ پر انحصار کرتی ہے۔‘

وہاج سراج نامی اکاؤنٹ نے ایک فیس بک پوسٹ کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں وصی علی نامی صارف نے لکھا کہ ’میں انٹرنیٹ کی بندش کے باعث اپنی نوکری کھو چکا ہوں اور میں اپنے اثاثے بیچ پر ملک چھوڑنے لگا ہوں۔‘

واضح رہے یہ پوسٹ ایک معروف فیس بک گروپ وائس آف کسٹمر کی ہے جہاں پاکستان بھر کی عوام اپنی شکایات پوسٹ کرتی ہے۔
اس گروپ میں کل وصی علی نامی صارف نے انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے شکایت کی اور بتایا کہ ملک میں انٹرنیٹ مسائل کے باعث ان کی کمپنی نے انہیں نوکری سے نکال دیا ہے۔ 
یہ پوسٹ انٹرنیٹ پر کافی وائرل ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد گروپ سے ڈیلیٹ ہوگئی تھی۔
اردو نیوز نے وصی علی کا اکاؤنٹ فیس بک پر تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ ان سے اس بارے میں بات کی جائے مگر ایسا کوئی اکاؤنٹ فیس بک پر موجود نہیں تھا۔ 
بظاہر اس نام سے کئی گئی پوسٹ کا سکرین شاٹ اس وقت سوشل میڈیا پر ہر طرف گردش کر رہا ہے مگر ڈیلیٹ ہو چکی پوسٹ میں کی گئی بات کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔ 
علینہ نامی صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’رشتے کے لیے ضروریات تبدیل کر دی ہیں، اب وی پی این کی سبسکرپشن اور بہتر انٹرنیٹ لازم ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’پہلے لوگ پیار میں مرتے تھے اب وی پی اینز شیئر کرتے ہیں۔‘

ڈیگزی نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’مختلف وائی فائے نیٹ ورکس پر مختلف وی پی اینز چل رہے ہیں، ہر کمپنی نے الگ الگ وی پی اینز بند کیے ہوئے ہیں۔‘

متعدد صارفین اپنی پوسٹس میں لوگوں سے پوچھتے نظر آئے کہ کون سا وی پی این چل رہا ہے۔ 

واضح رہے پی ٹی اے کے ذرائع نے سنیچر کو اردو نیوز کے نامہ نگار صالح عباسی کو بتایا تھا کہ ’غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کے حوالے سے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو وزارت داخلہ کی ہدایات کا انتظار ہے، تاہم اس حوالے سے اسے تاحال کوئی خط موصول نہیں ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزارت داخلہ کی تحریری ہدایات کے بعد فیصلہ کیا جائے گا، ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود غیررجسٹرڈ وی پی اینز کی بندش شروع نہیں کی جائے گی۔‘
ملک میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش کے حوالے سے تاحال پی ٹی اے کی جانب سے کوئی نئی وضاحت بھی سامنے نہیں آئی۔ 

شیئر: