Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم کا قتل، ’دوست ہی ملوث پائے گئے‘

ترجمان کے بقول ’پنجاب یونیورسٹی میں فائرنگ کا کوئی واقعہ ابھی تک رپورٹ نہیں ہوا۔‘ (فوٹو: لاہور پولیس)
5  دسمبر 2024 کو پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم محمد عمار (رانا عمار اختر) کو قتل کرنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی جمیعت طلبہ کی جانب سے کیمپس پل بلاک کر کے احتجاج شروع ہوا، جبکہ متعدد طلبہ نے وائس چانسلر آفس کے باہر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے چیف سکیورٹی آفیسر اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افئیرز کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
آج بھی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم ابتدائی پولیس تفتیش مکمل ہونے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ محمد عمار کے قتل میں اس کے اپنے ہی دوست ملوث پائے گئے ہیں۔
طالب علم کا قتل اور متضاد بیانات
طلبہ تنظیم کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی جینڈر سٹڈیز کے طالب علم محمد عمار کے یونیورسٹی میں قتل کا دعویٰ کیا گیا۔ محمد عمار کا تعلق قصور سے تھا اور وہ چھٹے سمسٹر کا طالب علم تھا۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد محمد عمار کو زخمی حالت میں شیخ زید ہسپتال لے جایا گیا۔
اسلامی جمیعت طلبہ نے ابتدائی طور پر مؤقف اپنایا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے محمد عمار کو تب گولی ماری جب وہ کھانا کھانے کے لیے یونیورسٹی میں قائم ڈھابے پر آئے۔
ترجمان اسلامی جمیعت طلبہ نے واقعہ رونما ہونے کے بعد اردو نیوز کو بتایا کہ ’دو موٹر سائیکل سواروں نے پی سی ڈھابے کے قریب محمد عمار کو گولی ماری جس کے بعد عمار کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘
 اس حوالے سے ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے اردو نیوز کو ابتدائی بیان دیتے ہوئے واقعے کی تردید کی۔ ترجمان کے بقول ’پنجاب یونیورسٹی میں فائرنگ کا کوئی واقعہ ابھی تک رپورٹ نہیں ہوا۔ مخصوص گروہ جھوٹی خبر پھیلا کر مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یونیورسٹی کی سکیورٹی نے مذکورہ مقام پر جا کر ابتدائی تحقیق کی ہے۔ مبینہ جگہ پر فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا۔‘
یونیورسٹی میں حالات کشیدہ
اس دوران مشتعل طلبا نے کیمپس پل بلاک کر کے کنال روڈ پر ٹائر جلائے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی بھی کی۔ پولیس کی بھاری نفری کیمپس پل پر تعینات رہی اور مشتعل طلبہ سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم طلبا محمد عمار کو اسلامی جمیعت طلبہ کا ساتھی قرار دے کر انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔
طلبہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں کیمپس پل ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا جبکہ طلبا یونیورسٹی میں داخل ہو کر جلوس کی شکل میں نعرہ بازی کرتے رہے۔ دوپہر 3 بجے کے قریب متعدد طلبا نے اردو نیوز کو بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے ڈپارٹمنٹس خالی کروانے کا کہا جا رہا ہے۔ اسلامی جمیعت طلبہ کے دیگر ساتھی وائس چانسلر آفس کے باہر موجود رہے تاہم کئی طلبا یونیورسٹی میں نعرہ بازی کرتے رہے۔ 
یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف اور پریس کانفرنس
ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے واقعے کے بعد بیان جاری کیا کہ جامعہ پنجاب کے حدود میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پانچ بجے یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے رجسٹرار، چیف سکیورٹی آفیسر، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس فئیرز اور دیگر عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔

 ایف آئی آر کے مطابق مقتول کے والد نے بتایا کہ واقعہ پنجاب یونیورسٹی کی حدود میں پیش آیا (فوٹو: لاہور پولیس)

پریس کانفرنس میں انتظامیہ اپنے مؤقف پر قائم رہی اور بتایا کہ واقعہ یونیورسٹی میں پیش نہیں آیا جبکہ پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ مقتول پنجاب یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ کے ایڈمن آفیسر رانا ارشاد کے بھانجے ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’ہمیں پانچ مقامات بتائے گئے، ہم نے وہاں جا کر تفتیش کی اور کیمروں کی ریکارڈنگ کا جائزہ لیا تاہم ہمیں اس واقعے سے متعلق کوئی عینی شاہد یا ثبوت نہیں ملے۔‘
مقتول کے ماموں کا بیان اور مقدمہ کا اندراج
پنجاب یونیورسٹی انگلش ڈپارٹمنٹ میں ایڈمن آفیسر رانا ارشاد مقتول کے ماموں ہیں۔ انہوں نے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھانجے یا ان کا کسی سیاسی جماعت یا تنظیم سے تعلق نہیں ہے۔ ان کے بقول ’پولیس معاملہ کی تفتیش کر رہی ہے، ہماری کسی سے یہاں یا گاؤں میں کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس معاملہ کو کوئی سیاسی رنگ نہ دیا جائے اور ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔‘
اسی روز تھانہ مسلم ٹاؤن میں طالب علم محمد عمار کے قتل کے خلاف والد رانا اختر جاوید کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمہ میں والد نے مؤقف اپنایا کہ انہیں دو طالب علموں نے ان کے بیٹے کو قتل کرنے سے متعلق بتایا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’باٹنی ڈپارٹمنٹ کے حذیفہ عبداللہ اور جینڈر سٹڈیز ڈپارٹمنٹ کے دلاور حسن ہنڈا سٹی برنگ سفید میں عمار کے ہمراہ 12 بج کر 45 منٹ پر پی سی ڈھابہ نزد جمنازیم پہنچے جہاں انہوں نے عمار پر فائرنگ کی۔‘
 ایف آئی آر کے مطابق مقتول کے والد نے بتایا کہ واقعہ پنجاب یونیورسٹی کی حدود میں پیش آیا، تاہم ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے ایف آئی آر کو تفتیشی رپورٹ کے بجائے والدین کا مؤقف قرار دیا۔ ترجمان کے بقول ’ابھی پولیس تفتیش ہونی ہے جس کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے۔ ایف آئی آر کو تفتیشی رپورٹ نہ سمجھا جائے۔‘
یونیورسٹی انتظامیہ کا کریک ڈاؤن 
اس واقعے کے بعد اسلامی جمیعت طلبہ کے ترجمان نے بتایا کہ طالب علم اگرچہ جمیعت کا رکن نہیں لیکن یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ ترجمان کے بقول ’محمد عمار ہمارا ساتھی نہیں تھا لیکن یہ 54 ہزار طلبا کی زندگیوں کا سوال ہے۔ یونیورسٹی میں اسلحہ کیسے آیا؟ ہم انتظامیہ سے یہی سوال کر رہے ہیں۔‘

یونیورسٹی انتظامیہ نے عینی شاہدین اور فوٹیجز کی مدد سے حملے میں ملوث جمعیت کے 11 کارکنوں کی شناخت کی (فوٹو: لاہور پولیس)

 رات کو اسلامی جمیعت طلبہ نے یونیورسٹی کی تمام کنٹینز بند کروا کر ایک بار پھر احتجاج ریکارڈ کیا۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے بعد انتظامیہ نے ملوث طلبا کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔
ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے عینی شاہدین اور فوٹیجز کی مدد سے حملے میں ملوث جمعیت کے 11 کارکنوں کی شناخت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’جمعیت کے 30 نامعلوم کارکنوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ نامزد کارکنان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ڈسپلنری کمیٹی کو خط بھی بھیج دیا گیا ہے۔ جمعیت ایف آئی آر میں درج درخواست گزار کے موقف کو تفتیش کا نتیجہ بتا کر جھوٹا پراپیگنڈہ کر رہی ہے جبکہ ایف آئی آر میں پی سی ڈھابے کا ذکر سنی ہوئی بات پر ہوا ہے جس پر تفتیش ہونا باقی ہے۔‘
تفتیش مکمل ہونے پر پولیس کی پریس کانفرنس
ایس پی اقبال ٹاؤن ڈویژن بلال احمد نے واقعے کی ابتدائی تفتیش مکمل ہونے کے بعد پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ’طالب علم کو پنجاب یونیورسٹی میں قتل کیا گیا۔ ان کے بقول ’تقریباً ایک بجے شیخ زید ہسپتال سے کیس رپورٹ ہوا کہ لڑکے کو فائر لگا ہے۔ دلاور نامی لڑکا مقتول عمار کا دوست تھا جس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مقتول رانا عمار جینڈر سٹڈی کا طالب علم تھا جو 03 فائر لگنے سے ہلاک ہوا۔‘
ایس پی اقبال ٹاؤن نے بتایا کہ ’رانا عمار اپنے دوستوں دلاور اور حذیفہ کے ہمراہ پنجاب یونیورسٹی میں پی سی ڈھابہ کے قریب گاڑی میں موجود تھا۔ ان کے مطابق گاڑی اور 9 ایم ایم پسٹل دلاور کی ملکیت تھی۔ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر پستول رکھی گئی تھی جو گاڑی کے پیچھے سیٹ پر بیٹھے حذیفہ نے مانگی۔‘
ایس پی کے بقول ’حذیفہ نے چیمبر مارا تو اچانک برسٹ کی شکل میں گولیاں چل گئیں۔ 3 گولیاں گاڑی کی سیٹ کو پھاڑتے ہوئے عمار کو لگ گئیں۔‘
 پولیس نے دلاور کو ہسپتال جبکہ حذیفہ کو گجرات کے نواحی علاقے سے گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق حذیفہ سے حادثاتی طور پر گولی چلی۔ ایس پی اقبال ٹاؤن نے یہ بھی بتایا کہ طلبا تنظیم کی جانب سے واقعے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ان کے بقول ’تینوں سٹوڈنٹس کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

 ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے بتایا کہ ’پولیس بھرپور محنت سے واقعے سے متعلق تمام حقائق سامنے لائی۔‘ (فوٹو: لاہور پولیس)

 ترجمان پنجاب یونیورسٹی خرم شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پولیس تفتیش کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ ’پولیس بھرپور محنت سے واقعے سے متعلق تمام حقائق سامنے لائی جس پر ہم پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پولیس نے طلبا تنظیم کے پراپیگنڈا کا بھی قلع قمع کیا جنہوں نے موٹر سائیکل سوار کی جانب سے فائرنگ کا جھوٹا پراپیگنڈا پھیلایا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی میں اسلحے کی موجودگی بھی پراپیگنڈا پر مبنی ہے۔ ان کے بقول ’یونیورسٹی کے تمام داخلی دروازوں پر باقاعدہ چیکنگ کی جاتی ہے۔ ماضی میں طلبہ تنظیم کے کمرے سے دہشت گرد بھی پکڑا گیا ہے۔ طلبہ تنظیمیں اپنے پروگراموں کے لیے مختلف سامان لاتے ہوئے اگر کچھ غلط چیز لائے تو اس میں مخصوص تنظیم ہی قصور وار ہے۔ اکثر ایسے پروگراموں کی اجازت نہ دینے کے باوجود بھی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اسلامی جمیعت طلبہ کو ایک پروگرام کی اجازت نہیں دی گئی، تاہم وہ تالے توڑ کر اپنا سامان اندر لے آئے تھے۔‘
یونیورسٹی میں حالیہ واقعات 
پنجاب یونیورسٹی میں طویل عرصے سے مختلف واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل ایک طالبہ کی خودکشی کا واقعہ رپورٹ ہوا جبکہ موٹر سائیکل چوری، ہراسمنٹ اور دیگر واقعات سے متعلق بھی رپورٹس آتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے طلبا تنظیموں کا مؤقف ہے کہ یونیورسٹی میں سکیورٹی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ 
اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ کے علاوہ دیگر علاقائی اور لسانی کونسلز بھی طلبا کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی یو ایس ایف) میں یونیورسٹی کی تمام کونسلز شامل ہیں۔ پی یو ایس ایف کے چئیرمین سیف اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یونیورسٹی میں کئی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جو بروقت یونیورسٹی کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔
ان کے بقول ’کئی واقعات میں جب انتظامیہ کی جانب سے ایکشن نہیں لیا جاتا تو ہم احتجاج پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حالیہ واقعے پر ہماری طرف سے خاموشی اختیار کی گئی کیونکہ مجموعی طور پر حقائق کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب پولیس حقائق سامنے لے آئی ہے اور عمار کے قتل میں دوست ہی ملوث پائے گئے ہیں۔‘
دوسری جانب اسلامی جمیعت طلبہ کے ترجمان ارسلان اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اب تک اس سال دو فائرنگ کے واقعات، 10 ہراسمنٹ اور 15 موٹر سائیکل چوری کے واقعات پیش آئے ہیں جن پر انتظامیہ سے گفت و شنید جاری ہے۔‘
ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق ایسے واقعات کے خلاف انتظامیہ مسلسل کارروائی کرتی ہے۔

شیئر: