محمد آل دخیش ۔ الوطن
امریکی ریاست میسا چوسٹس کے شہر بوسٹن کے دورے کے موقع پر میں نے امریکہ سے متعلق اپنے مطالعے کو مشاہدات کے ذریعے مالا مال کرنے کا اہتمام کیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ” شنیدہ کے بود مانند دیدہ“ کہ”سنا ہوا دیکھے جیسا نہیں ہوتا“۔ دور سے مطالعہ کرکے زمینی حقائق کو جاننا اور انہیں دیکھ کر برتنا اور سمجھنا دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بوسٹن میں دنیا کی عظیم ترین ہارورڈ یونیورسٹی ہے جس سے جہاں بھر میں فکر و نظر کی روشنی پھیل رہی ہے۔ بوسٹن دیکھ کر مجھے مسلم عرب ممالک کے ان بزرگوں کے ملفوظات یاد آنے لگے جنہوں نے گزشتہ صدی کے آغاز میں مغربی دنیا کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”ہمیں مغرب میں مسلمان نظر آئے اسلام نہیں“۔ مطلب اسکا یہ تھا کہ کام اچھی طرح سے کرنے، اخلاص سے پیش آنے ، ایمانداری کا مظاہرہ کرنے ، ایک دوسرے سے تعاون اور انکساری کے ساتھ پیش آنے کی جو تلقین ہمیں اسلام کی لازوال قدروں میں ملتی ہے، وہ مغربی ممالک میں مجسم شکل میں نظرآتی ہے۔ ہمارے یہاں اس قسم کی اقدار پر زور دار نظریاتی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ عمل سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے عرض کرونگا کہ زندگی کے تمام شعبو ں میں امریکہ کی برتری کا رازہمیں دریافت کرنا چاہئے۔ امریکہ کی برتری ہمیں حقیقت حال دریافت کرنے کی تحریک دیتی ہے۔میں نے دیکھا کہ بوسٹن کے باشندے جلدی سو جاتے ہیں اور سویرے اٹھ کر چہل قدمی کرتے ہیں ۔ ڈیوٹی پر جانے سے قبل تیز تیز قدموں سے حرکت کرتے ہیں۔ یہ ورزش انہیں مقررہ وقت پر دفترجانے سے نہیں روکتی۔ دفتر وقت سے پہلے پہنچتے ہیں۔ انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ صارفین کا احترام کرتے ہیں۔ قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ بچپن سے انہیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ کالے گورے، مالدار اور نادار میں فرق نہ کریں۔ یہ وہ اسلامی اقدار و اخلاق ہیں جو ہمیں اپنے دین سے ملی ہیں۔ شہروںکی منصوبہ بندی ، ٹرانسپورٹ ، پارکوں کا سلسلہ اور عمارتوں کا قطار در قطار کھڑے ہونا یہ سب وہاں ترقی ، منفرد تمدن کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
میں حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ سب دیکھ کر خود سے سوال کرتا رہا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے سائنسدان، انجینیئراور ڈاکٹر یہ ساری خوبیاں مغربی دنیا سے ہمارے یہاں کیوں منتقل نہیں کرتے۔
خود کلامی نے مجھے یہ سکھایا کہ ہماری قدیم قیادت نے ہمیں اصلاحات اور تبدیلیوں سے روکے رکھا۔ انتہائی دھیمے پن سے ترقی کا سفر شروع کیا جبکہ ہم میزائل کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 2030 پیش کرنے والا نوجوان قائد عطا کیا جس کی بدولت زندگی کے مختلف شعبوں میں کلیدی عہدوں پر نوجوانوں کو قیادت کا موقع دیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ مختصر وقت میں علمی و عملی انقلاب برپا ہوگا اور ہمیں اقوام عالم میں وہ مقام نصیب ہوگا جس کے ہم بجا طور پر مستحق ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭