”شرم الشیخ“ سربراہ کانفرنس: اختلافات کا اعتراف چیلنجوں سے نمٹنے پر اتفاق
حسن ناصر الظاہری ۔ المدینہ
پہلی بات سو فیصد مسلم ہے اور وہ یہ کہ شرم الشیخ میں منعقدہ پہلی عرب یورپی سربراہ کانفرنس کا انعقاد بذات خود ایک کامیابی ہے۔ البتہ دوسری بات بھی اپنی جگہ اہم ہے اور وہ یہ کہ سربراہ کانفرنس کا اعلامیہ امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ یورپی کونسل کے سربراہ نے کانفرنس کے موقع پر جو کہا تھا وہی صحیح نکلا کہ ”ہمارے درمیان اختلافات ہیں ہم یہاں یہ دعویٰ کرنے کیلئے نہیں جمع ہوئے کہ ہر مسئلے پر ہم اتفاق رائے کریں گے۔ ہمارا مقصد مشترکہ چیلنجوں اور مفادات سے نمٹنے کا پختہ عزم ظاہر کرنا ہے۔ اس سربراہ کانفرنس کا نمایاں عنوان یورپی یونین اور عرب لیگ کے قائدین کا یہ عہد و پیمان ہے کہ وہ دہشتگردی کیخلاف جنگ، غیر قانونی ہجرت روکنے اور مسئلہ فلسطین حل کرنے کیلئے پختہ تعاون کریں گے۔ جہاں تک شام، لیبیا اور یمن کے حالات اور خطے میں ایران کی مداخلت کا معاملہ ہے تو ان سارے امور کے سرسری سے تذکرہ پر اکتفا کرلیا گیا۔ یورپی اور عرب قائدین نے اعلامیہ میں ان ممالک تک کا تذکرہ گوارا نہیں کیا جو مذکورہ کشمکشوں کو بھڑکا رہے ہیں اور ملیشیاﺅںکو دولت اور اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔
شرم الشیخ سربراہ کانفرنس ایک طرح سے ریاض سربراہ کانفرنس کا تکملہ ہے۔ سعودی عرب اور اس کا برادر ملک مصر مشرقی اور مغربی دنیاﺅں کے سامنے خطے میں امن کے تحفظ اور پیغام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے تصورات کا محور مشرق وسطیٰ میں امن و امان اور ترقی و خوشحالی برپا کرنا ہے۔ یہ خطہ باغی ممالک کا ہدف ، یہ خطہ آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ ریاض میں مسلم ممالک کے رہنماﺅں نے امریکی صد ر ٹرمپ سے ملاقات کرکے ”امن و سلامتی“ کیلئے شراکت کا عہد کیا تھا۔ اس کانفرنس کے موقع پر انتہا پسندانہ افکار کے انسداد کیلئے عالمی مرکز ”اعتدال“ قائم کیا گیا تھا۔ اس کا صد ر دفتر ریاض میں کھولا گیا ۔ یہ مرکز غیر ملکی جنگجوﺅں اور دہشتگرد تنظیموں کی سرگرمیوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ اسی تناظر میں شرم الشیخ سربراہ کانفرنس ، ریاض کی مسلم امریکی سربراہ کانفرنس کے اہداف اور مشن کی تکمیل کے مترادف ہے۔نئی کانفرنس کے میزبان مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے شرم الشیخ سربراہ کانفرنس سے مطلوبہ اہداف کا خلاصہ یہ کہہ کر بیان کیا کہ عالم عرب اور یورپی دنیا کو دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے مل جل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس کی اشد ضرورت ہے۔ السیسی نے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنارع کے منفی اثرات تمام ممالک پر پڑیں گے۔ لیبیا، شام اور یمن کے لڑائی جھگڑوں کو سیاسی تصفیہ کے بغیر یونہی چھوڑ دینا ”کوتاہی“ ہے۔ اس کوتاہی کے ذمہ دار سب شمار ہونگے۔ جی ہاں ہمارے درمیان اختلافی نکات ہیں۔ ہمیں اختلافات کا ادراک بھی ہے۔ خود یورپی ممالک کے درمیان اختلافات ہیں۔ البتہ بعض مسائل ایسے ہیں جن پر ہم لوگ متفق ہیں۔ ان میں سرفہرست عرب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ (فلسطین) کا ہے۔ پوری عرب دنیا اس پر متفق ہے۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے شرم الشیخ سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا تھا۔ انہوں نے ظہران عرب سربراہ کانفرنس کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام عرب ممالک فلسطینی عوام کے غصب شدہ حقوق دلانے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس حوالے سے کہا کہ مسئلہ فلسطین ہی خطے میں کشمکش کی جڑ ہے۔
یہ تسلیم ہے کہ شرم الشیخ سربراہ کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں خطے کود رپیش بحرانوں میں ایران کا صاف الفاظ میں تذکرہ نہیں کیا تاہم یمن سے متعلق سویڈن دورہ کی تائید و حمایت اور اس کی بابت جاری ہونے والی عالمی قراردادوں سے وابستگی کا اظہار خوش آئند عمل ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭