ای گیمز سے نام اور پیسہ بنانے والے پاکستانی نوجوان
ای گیمز سے نام اور پیسہ بنانے والے پاکستانی نوجوان
منگل 2 جولائی 2019 3:00
جاسرہ علی -اردو نیوز، اسلام آباد
بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہمارے کھیل اور تفریحی سرگرمیاں بھی بدلتی رہی ہیں۔
دہائیوں پہلے کیکلی، گلی ڈنڈا، چھپن چھپائ ، کھوکھو، آنکھ مچولی جیسے کھیل ہمارے بچوں کی سرگرمیاں اور گلی محلوں کی رونق ہوا کرتے تھے، اور لڈو اور کیرم بورڈ جیسے کھیل گھروں کی۔
پھر کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال میں پاکستان عروج کو پہنچا تو تمام بچوں نے یہی کھیل کھیلنا شروع کر دیے یا پھر محلوں میں سنوکر اور بلیئرڈ کلب جیسے مراکز جو نسبتاً بڑی عمر کے لڑکوں کی دلچسپی بن گئے۔
لیکن جوں جوں ٹیکنالوجی آتی گئی، کھیل بھی کمپیوٹرائز ہوتے گئے اور بچوں کی دلچسپیاں بھی۔
پھر ہر جگہ کمپیوٹر یا ویڈیو گیمز کے سینٹرز کھل گئے جن میں بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپی کا اتنا سامان تھا کہ یہ گھنٹوں ان میں مگن رہتے۔
کمپیوٹرز اور موبائل فونز میں آنے والی مزید جدت نے تو گذشتہ چند سالوں میں ان الیکٹرونک گیمز کی تمام ہیئت بدل کر رکھ دی ہے۔ اور نوجوان نسل جو پہلے کرکٹ اور فٹبال جیسے کھیلوں میں دلچسپی لیا کرتے تھے اب وہ بھی ’ای گیمنگ‘ کے ماہر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔
ای-گیمنگ ہے کیا؟
پرانے وقتوں میں جو کھیل کھیلنے کے لیے گراونڈ میں جانا پڑتا تھا، جیسا کہ کرکٹ اور فٹبال وغیرہ، اب وہ تمام کھیل ای گیمز کی صورت میں آپ کی جیب میں رکھے موبائل یا لیپ ٹاپ میں میں باآسانی میسر ہیں۔
اب بچوں اور بڑوں نے گراونڈز میں جانا ترک کر دیا ہے اور ہر وقت موبائل، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر ای کرکٹ، ای فٹ بال اور ایسے ہی دوسرے کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں میں ای گیمنگ کے بڑھتے رجحان کے باعث کئی سال قبل ہی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں گیمنگ کیفیز کھل گئے تھے۔
ان کیفیز کی بڑی سہولت تمام اقسام کی ای گیمز اور انٹرنیٹ کی مستقل اور تیز فراہمی ہے، جس نے تمام شائقین چاہے وہ آٹھ سال کا بچہ ہو یا 21 سال کی لڑکی یا لڑکا، اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا۔
گیمنگ کیفیز، مفید یا نقصان دہ؟
ان کیفیز کی وجہ سے نوجوانوں کا وقت تو ضائع ہوتا ہی ہے لیکن بہت سے گیمنگ سینٹرز پر ان کے لئے ایسی سرگرمیاں بھی مہیا کی جاتی ہیں جن کی عام طور پر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے۔
بیشتر کیفیز میں سگریٹ، شیشہ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال اور غیر اخلاقی مواد دکھائے جانے کی شکایات ہیں۔ جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو وہاں جانے سے روکتے ہیں۔
لیکن چند نوجوان ایسے بھی ہیں جنہوں نے ای گیمز کھیل کر وقت ضائع کرنے کی بجائے ان سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیا ہے۔
حال ہی میں کراچی کے ایک نوجوان سمیل حسن نے ایک وڈیو گیمز ٹورنامنٹ جیت کر 10 لاکھ ڈالر کی حد عبور کرنے والے کم عمر ترین گیمر کا اعزاز حاصل کیاہے۔
سات سال کی عمر میں ویڈیو گیم ’ڈوٹا ٹو‘ سے گیمنگ کا آغاز کرنے والے سمیل نے 2015 میں ڈوٹا 2 ایشیئن چیمپیئن شپ میں کامیابی حاصل کی جس کے عوض انہیں دو لاکھ 56 ہزار 831 ڈالر نقد انعام دیا گیا اور ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کر لیا گیا۔
سمیل کی اس کامیابی نے ان کے اور ان جیسے کئی اور پاکستانی والدین کا نظریہ بھی کافی حد تک بدل دیا ہے۔
کھیل کا کھیل، پیشے کا پیشہ
اسلام آباد کی رہائشی سعدیہ بشیر نے بچپن میں اپنے بھائیوں کے ساتھ گیمنگ کیفیز میں جا کر کھیلنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔
انہوں نے اس شعبے کو بطور کیرئیر اپنانے کا فیصلہ کیا اور آج اپنا گیمنگ ڈیویلپمنٹ سینٹر چلا رہی ہیں۔
’گیمنگ سے متعلق پڑھنے اور مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ایسے تمام نوجوان جو اس انڈسٹری سے متعلق کام کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس مناسب مواقع نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی پکسل آرٹ اکیڈمی بنانے کا فیصلہ کیا۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں چاہتی تھی کہ جو میں نے خود سیکھا اور جس طرح میں اس فیلڈ میں آگے بڑھ رہی ہوں اس طرح وہ تمام نوجوان اور لوگ جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں آکر وہ اپنے خیالات کو عملی شکل دے سکیں۔‘
ان کا کہنا ہے ’اب 10 سال کے بچوں سے لے کر گھریلو خواتین کو اس اکیڈمی میں آتا دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔‘
پاکستان کی گیمنگ انڈسٹری اور ورلڈ رینکنگ
2011 میں عمیر احمد اوران کے دوستوں نے مل کر گرین گیمنگ کمینوٹی کا آغازکیا۔ اس زمانےمیں پاکستان میں گیمنگ سرورز نہ ہونے کے برابر تھے۔ جس کی وجہ سے عمیر اور ان کے ساتھیوں نے مل کر گیمنگ سرورزکی کمی کو محسوس کرتے ہوئے گیمز کے شوقین افراد کے لیے سرورز فراہم کرنے شروع کیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قائم کردہ کمیونٹی مزید بڑھتی گئی اور آج ان کی گیمنگ کمیونٹی پاکستان میں نمبر ون جب کہ ورلڈ رینکنگ میں ساتویں نمبر پرہیں۔
عمیر کہتے ہیں کہ گھروں میں باآسانی دستیاب کمپیوٹرز اور دیگر آلات کے باجود لوگوں کی بے پناہ تعداد آج بھی گیمنگ کیفیز کا رخ کرتی ہے۔ جس کی ایک وجہ ٹیمز میں گیمز کھیلنے کے شوقین ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عمیر نے بتایا کہ بنیادی طور پر دو قسم کے لوگ ہیں جو زیادہ تر گیمنگ کیفز کا رخ کرتے ہیں ایک وہ جن کے پاس گیمز کھیلنے کے لیے مناسب کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور دوسرے ایسے لوگ آتے ہیں جنھوں نے گھر پر گیمز کا سامان رکھا ہوا ہے مگر وہ لو گ یہاں ٹیم میچز کے لیے آتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کھیلنے کا مزہ بھی آتا ہے اور مختلف لوگوں سے مل کر سیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔
سعدیہ بشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت ہنرمند اور بہترین گیمز ڈایزئن کرنے والے ڈویلپرز موجود ہیں جواس انڈسٹری کو مزید آگے لے جا سکتے ہیں۔