اس ڈی این اے سے سائنسدانوں کو اس بات کا بھی علم ہوا ہے کہ شاید یہ لڑکی دودھ آسانی سے ہضم نہیں کر سکتی تھی۔
تحقیق کے مطابق اس لڑکی کا تعلق جنیاتی طور پر مرکزی یورپ کے شکاری خانہ بدوشوں سے زیادہ قریب تھا نہ کہ اس وقت کے مرکزی سکینڈی نیویا سے۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے محقق ہینس شروڈر نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی انسان کی جنیاتی معلومات اس کے ہڈیوں کی بجائے کسی دوسری چیز سے حاصل کی گئی ہوں۔‘
ہینس شروڈر اس تحقیق کے شریک مصنف ہیں۔ ان کی یہ تحقیق نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق اس ڈی این اے سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا ہے کہ وہاں کون لوگ رہ رہے تھے، وہ کس قسم کی خوارک کھا رہے تھے اور ان کے دانتوں پر کون سا بیکٹریا تھا۔
ایک اور محقق جینسن کہتے ہیں کہ ان کو ڈی این اے کا یہ نمونہ جنوبی ڈنمارک میں کھدائی کے وقت ملا۔
محقیقین کو آثار قدیمہ کی اس مقام سے جانوروں اور پودوں کے ڈی این اے بھی ملے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگ مچھلی کھانے، شکار کرنے اور جنگلی گری دار میوؤں پر گزارا کرتے تھے۔