کورونا: سٹیٹ بینک کا ہسپتالوں کے لیے سستے قرضوں کا اعلان
کورونا: سٹیٹ بینک کا ہسپتالوں کے لیے سستے قرضوں کا اعلان
منگل 17 مارچ 2020 18:31
توصیف رضی ملک -اردو نیوز، کراچی
کورونا سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں کو 3 فیصد شرحِ سود پہ قرض دیا جائے گا۔ فوٹو اے ایف پی
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے منگل کو نئی مانیٹری پالیسی کا اجراء کرتے ہوئے شرحِ سود 75 بیسِس پوائنٹس کی کمی کے بعد 13.25 سے کم کر کے 12.5 فیصد مقرر کردی ہے۔
مرکزی بینک نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں کو 3 فیصد شرحِ سود پر قرض دیا جائے گا۔
زری پالیسی کے اجراء کے حوالے سے جاری کردہ بیان میں گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے بتایا کہ ہسپتالوں اور میڈیکل سینٹرز کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کی خاطر ری فنانس سہولت (آر ایف سی سی) اور ہم آہنگ ورژن کا بھی اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے تحت سٹیٹ بینک ’کورونا وائرس کا پتہ چلانے، محدود کرنے اور علاج کے آلات کی خریداری پر پانچ سال کے لیے زیادہ سے زیادہ 3 فیصد کی شرح پر فنانسنگ فراہم کرنے کے لیے بینکوں کو ری فنانس کرے گا۔‘
بینکوں کو یہ سہولت صفر شرح فیصد پر فراہم کی جائے گی۔ تمام ہسپتال اور وفاقی و صوبائی ہیلتھ ایجنسیوں کے رجسٹرڈ میڈیکل سینٹرز جو کورونا وائرس کے کنٹرول اور خاتمے میں مصروف ہیں یہ سہولت حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔
’اس سکیم کا مجموعی حجم 5 ارب روپے ہے جس میں فی ہسپتال یا میڈیکل سینٹرکی فنانسنگ کی حد زیادہ سے زیادہ 200 ملین روپے ہے۔ سکیم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے اور انسان پر اس کے اثرات کم کرنے میں معاون ہوگی اور ستمبر 2020ء کے آخر تک دستیا ب ہوگی۔‘
کورونا وائرس کے عالمی منڈیوں پہ منفی اثرات کے تناظر میں ترقی یافتہ ممالک نے شرح سود انتہائی حد تک کم کر دی ہے تا کہ ڈوبتی معیشت کو قدرے استحکام مل سکے اور کریڈٹ کرنچ سے بچایا جا سکے۔
ایسے میں توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات ہوں گے اور معاشی ماہرین کو توقع تھی کہ شرحِ سود میں کم از کم 200 فیصد کمی کی جائے گی، تاہم سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کاروباری طبقہ کی توقعات کے برخلاف ہے۔
امریکہ نے حالیہ دنوں میں متعدد بار شرحِ سود میں کمی کرتے ہوئے اسے تقریباً ختم کردیا ہے، جبکہ انگلینڈ نے بھی شرحِ سود میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ان اقدامات کا مقصد کریڈٹ کرنچ سے بچنا اور کم ہوتی معاشی سرگرمیوں کو سہارا دینا ہے۔ تاہم گورنر سٹیٹ بینک پاکستان رضا باقر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستانی معیشت کو ملانا درست نہ ہوگا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں پاکستان میں شرحِ سود بڑھی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ سال کے آخر میں ایک بیان میں شرح سود کم ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ اس سے پہلے شرح سود میں آخری بار کمی 2016 میں کی گئی تھی، جبکہ 2017 میں شرح سود 6 فیصد سے کم تھا، جو 25 سال میں کم ترین شرح تھی، جس کے بعد شرحِ سود میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور اگست 2019 سے شرحِ سود 13.25فیصد پہ قائم تھا۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں سست روی، تیل کے عالمی نرخوں کے تیزی سے گرنے اور کورونا وائرس کی وبا کی بنا پر بیرونی اور ملکی طلب میں سست رفتاری سے مہنگائی کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 75 بی پی ایس کم کرکے 12.50فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’کورونا وائرس کی وبا نے بیرونی اور ملکی طلب کم کردی ہے جبکہ خطرے سے گریز اور مستقبل سے متعلق غیر یقینی کیفیت میں اضافہ کردیا ہے۔ ساتھ ہی تیل کی عالمی قیمتیں گر گئی ہیں، جو اسی طرح پست رہیں تو اس سے ملکی مہنگائی کم کرنے اور جاری کھاتے میں بہتری لانے میں مدد ملے گی۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آئی ہے۔
’ذخائر آخر جون 2019ء میں 7.28 ارب ڈالر سے بڑھ کر آخر فروری 2020ء کو 12.76 ارب ڈالر ہوگئے یعنی 5.48 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔‘
حالیہ ملکی اور عالمی حالات کی روشنی میں سٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے لیے حقیقی جی ڈی پی شرح نمو 3.0 فیصد کے لگ بھگ رہنے کی پیش گوئی کی ہے اور ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ اگلے سال کسی قدر بحالی کی توقع ہے بشرطیکہ ’عالمی تجارت اور مالی مارکیٹوں پر کورونا وائرس وبا کا اثر کم اور تھوڑے عرصے کے لیے ہو۔‘