پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں کورونا وائرس سے پیداشدہ صورت حال میں بار بار تلقین کے بعد اب عوام کو گھروں میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے باہر نکلنے سے پرہیز کو ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن کچھ شعبے ایسے ہیں جو گھروں میں نہ رہ کر دوسروں کی حفاظت کی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’آئندہ ہمیں وائرس سے لڑنا ہوگا‘Node ID: 466176
-
کراؤن سے کورونا اور کوارانٹا سے قرنطینہNode ID: 466486
-
خوف اور بے یقینی کے عالم میں کیا کوئی اچھی خبر بھی ہے؟Node ID: 466656
ہنگامی نوعیت کے شعبوں سے وابستہ ان افراد میں طبی اور معاون طبی عملے کے وہ اراکین سرفہرست ہیں جو کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کا علاج اور ان کی تشخیص کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے سوشل میڈیا صارفین طبی و معاون طبی عملے کی ان کاوشوں کو ناصرف سراہ رہے ہیں بلکہ انہیں بھرپور خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں۔
گلگلت بلتستان میں کورونا کے مشتبہ افراد کی سکریننگ کے دوران خود بیمار ہونے اور پھر جانبر نہ ہو سکنے والے جواں سال ڈاکٹر عثمان ریاض کو بھی بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
جواں سال ڈاکٹر عثمان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر سامنے آئی تو دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔ غزہ سے تعلق رکھنے والے عمر غریب نامی صارف نے لکھا ’یہ ہیرو جنت پائے، غزہ سے ڈھیروں محبتوں کے ساتھ پاکستان کے لیے دعائیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا امور کے بیورو نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ڈاکٹر عثمان کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا۔ نائب وزیرخارجہ ایلس ویلز کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دوسروں کو محفوظ رکھنے کا کام کرنے والے طبی عملے کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔
کورونا وائرس کے مشتبہ کیسز اور مریضوں کا علاج کرتے طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گذشتہ روز ایفل ٹاور کو بھی رنگ برنگ روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔
The Eiffel Tower lit up in a sparkling tribute to medical workers treating coronavirus patients. https://t.co/RF5Gg4dAUt pic.twitter.com/jGuscFN2cq
— ABC News (@ABC) March 23, 2020
ٹوئٹر صارفین کورونا وائرس کے دوران طبی اور معاون طبی عملے کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان سے مزید رہنمائی کے خواہش مند بھی دکھائی دیے۔ جمیل ناز نامی صارف نے لکھا کہ ’ اس جنگ کی کمان ڈاکٹروں نے سنبھالنی ہے، ڈاکٹر ہی بتائیں گے ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ کونسی حفاظتی تدابیر اپنانی ہیں اور کون سے کڑوے گھونٹ پینے ہیں۔‘
امریکی رکن کانگریس آئینا پریسلے نے بھی اپنی ٹویٹ میں گروسری سٹورز ورکرز، کیشیئرز، گھریلو ملازمین، سفری عملے، صفائی کرنے والے افراد اور طبی عملے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم آپ کو دیکھتے ہیں، آپ کی قدر کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب عوام کو غیرضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی ہدایات اور ان کی یاددہانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی ٹویٹ میں گھر میں ٹھہر کر زندگیاں بچانے کا پیغام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو لوگ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ محفوظ نہیں ہیں، گھر جائیں اور گھروں پر رہیں۔ آپ ناصرف خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ دوسروں نرسز، ڈاکٹرز، گروسری سٹور ورکرز اور اپنے بزرگوں کو بھی خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔
ضروری اور حفاظتی سازوسامان کے بغیر طبی عملے کی خدمات کے پیش نظر سوشل میڈیا صارفین حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ انہیں ضروری اشیا فراہم کی جائیں۔
نیویارک کے میئر نے اعلان کیا کہ شاید ایک ہفتے میں نیو یارک کے ہسپتال علاج کے لیے ضروری اشیا سے خالی ہو جائیں گے تو ٹیڈ لیو نامی صارف نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کو نافذ کریں تاکہ طبی عملے کو ضروری سامان مہیا ہو سکے۔
پاکستان میں بھی ڈاکٹروں اور طبی عملے کی جانب سے علاج اور حفاظت کے لیے ضروری اشیا کی قلت کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ اس معاملے پر ڈاکٹروں نے احتجاج بھی کیا جس کے بعد حکومت کا کہنا ہے کہ وہ معالجین اور دیگر عملے کو ضروری سامان فراہم کر رہی ہے۔
کورونا وائرس سے متعلق اعدادوشمار شیئر کرنے کی غرض سے قائم جان ہاپکنز یونیورسٹی ڈیش بورڈ کے مطابق دنیا بھر میں منگل تک کورونا کیسز کی تعداد تین لاکھ 81 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ 16 ہزار 500 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ اب تک صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ ایک ہزاد سے زائد ہو چکی ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں