امریکی دباؤ میں آ کر چند دن پہلے برطانیہ نے اپنے فائیو جی نیٹ ورکس کے لیے ہواوے سے مزید آلات اور پرزہ جات خریدنے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ پہلے سے خریدے گئے جو آلات ملک میں نصب ہیں انھیں بھی 2027 تک نئے آلات سے بدل دیا جائے گا۔
صرف چھ مہینے پہلے ہی برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کابینہ نے ہواوے کو ’محدود کردار‘ دینے کی منظوری دی تھی اور یہ فیصلہ ملکی سلامتی کے اداروں کی جانب سے ان ضمانتوں کے بعد کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی سکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
امریکہ کا اب یہ کہنا ہے کہ برطانوی فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ واشنگٹن اپنی حکمتِ عملی میں حق بجانب ہے۔
مزید پڑھیں
-
ہواوے کو فرانس میں 5 جی پر کام کی اجازتNode ID: 458856
-
نیا آئی فون ایس ای پرانے ایپل فونز کا چربہ؟Node ID: 472256
-
نوکیا کا انڈیا کی ایئرٹیل کے ساتھ ایک ارب ڈالر کا معاہدہNode ID: 475121
امریکہ کی حکمتِ عملی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کئی ممالک کو امریکی تعاون میں کمی کی دھمکی دے کر مجبور کیا گیا کہ وہ ہواوے کو اپنے فہرست سے نکال دیں۔
پھر ہواوے کے خلاف تحقیقات کا اعلان ہوا، اس کی چیف فناشل آفیسر کی حراست، مئی 2019 میں امریکی کمپنیوں اور اس برس غیر امریکی کمپنیوں پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ وہ ہواوے کے ساتھ کام نہیں کر سکتیں۔
اس بار کی ان امریکی کوششوں نے بارآور ہونا ہی تھا چنانچہ جیسے ہی معاملات قابو میں آئے، امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ’ہوا بدل گئی ہے۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ ہواوے کے خلاف کارروائی کے فیصلے پر جو ممالک فتح کے احساس سے سرشار ہیں، کیا ان میں حقیقتاً جیت کا عنصر ہے بھی یا نہیں۔
امریکہ نے ہواوے کے خلاف جو کیا وہ محض مخالفت نہیں بلکہ اس کے پیچھے وجوہات کا ایک سلسلہ ہے۔

امریکہ چاہتا ہےکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ اپنے حریفوں سے آگے رہے۔ اور اگر وہ کسی طرح امریکہ پر سبقت لے بھی جائیں تو انھیں حد میں رکھا جائے۔ ماضی میں جاپانی کمپنی توشیبا کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا اور 2018 میں چینی کمپنی زیڈ ٹی سی بھی اسی سلوک کا شکار ہوئی تھی جبکہ یورپ کی ایئر بس حالیہ زمانے میں کئی مسائل سے دوچار ہے۔
اور جب معاملہ فائیو جی جیسی تاریخ ساز تبدیلی کا ہو تو امریکہ کا پریشان ہونا تو بنتا ہے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی صرف فونز کے لیے نہیں بلکہ یہ کاریں خود بخود چلانے اور گھروں کے اندر رکھی ہوئی چیزیں مثلاً فریج ہوں یا ایئر کنڈیشنر یا دیگر آلات کے استعمال کو حیرت انگیز طور پر آسان بنا دے گی اور ایک انقلابی تبدیلی برپا کر دے گی۔
اگر اس ٹائم فریم پر نظر ڈالی جائے جو برطانیہ نے ہواوے کے آلات ہٹانے کے لیے دیا ہے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ شاید امریکی دباؤ سے بچنے اور اپنا دامن بچانے کی ایک کوشش ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ اس سال اکتیس دسمبر کے بعد ہوواوے کے آلات و پرزے خریدنے پر پابندی ہوگی۔
اس ڈیڈ لائن کے پورے ہونے میں ابھی لگ بھگ پانچ ماہ باقی ہیں۔ برطانیہ کے پاس ہواوے کے بجائے ’نوکیا‘ اور ’ایریکسن‘ جیسی کمپنیوں سے (کچھ مہنگی) آلات اور پرزے خریدنے کا آپشن موجود ہے۔ لیکن ان پانچ ماہ میں ظاہر ہے ہواوے کے بنے ہوئے آلات کا ڈھیر جمع کر لیا جائے گا۔

برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے شاید صدر ٹرمپ اس سال الیکشن نہ جیت سکیں۔ایسی صورت میں جب ایک امریکی صدر دفتر چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہوگا جبکہ دوسرا وائٹ ہاؤس سنبھالنے کے انتظار میں ہوگا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ برطانیہ کا ہواوے کے بارے میں حالیہ فیصلہ ایک بار پھر بدل جائے اور صدر ٹرمپ اور نئے امریکی صدر دونوں ہی بہ دلِ ناخواستہ اسے مان بھی جائیں۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں ہواوے کی طرف سے فائیو جی نیٹ ورکس کی تنصیب کے لیے جو آلات لگائے گئے ہیں انھیں ہٹانے کی ڈیڈ لائن2027 تک ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ اُس سال الیکشن جیت بھی جائیں تو ان کی دوسری ٹرم بھی پوری ہو چکی ہوگی اور وہ صدر نہیں ہوں گے۔
علاوہ بریں برطانیہ کے ٹیلی کام کا یہ عذر بھی ہے کہ جلدی میں اگر ہواوے کے پہلے سے نصب شدہ آلات اور پرزہ جات کو ہٹایا گیا تو یہ کام بہت مہنگا پڑے گا۔ اس کے علاوہ برطانوی ڈیڈ لائن جب ختم ہونے کے قریب ہوگی عین اسی زمانے میں ہواوے امریکی پابندیوں سے بھی آزاد ہوچکا ہوگا۔
ان تاریخوں سے تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ برطانیہ کی پالیسی یہ ہے کہ ہواوے کے آلات ملک سے ہٹانے میں کافی وقت لگ جائے اور موجود نیٹ ورکس کام کرتے رہیں۔ اور اس کا واضح مطلب تو یہی ہوگا کہ برطانیہ چاہتا ہے کہ آئندہ سات برس تک ہوواوے اس کے نیٹ ورکس کا حصہ بنا رہے۔
