یکساں تعلیمی نصاب کے حوالے سے سول سوسائٹی کے چند تحفظات ہیں۔ فوٹو اے ایف پ
خان صاحب کی حکومت کو دو سال مکمل ہونے کو ہیں۔ ان کی الیکشن کی تقریروں میں ایک ملک میں تین تعلیمی نظام اور تین طرح کے نصاب پر تنقید سنائی دیتی تھی اور یکساں نظامِ تعلیم کا وعدہ ان کے الیکشن منشور میں شامل تھا۔ یکساں نصاب کا یہ نعرہ سننے میں یقیناً پر کشش اور پُراثر ہے۔ اس میں سماجی فرق کو مٹانے کا عزم بھی ہے اور بنیادی نظام تعلیم سے ہٹے ہوئے طبقات کو قومی دھارے میں لانے کا خوش کن دعوٰی بھی۔
اپنی حکومت کا دوسرا سال مکمل ہونے پر اب جبکہ تحریک انصاف یکساں نصاب متعارف کروانے کے بارے میں ایک سنجیدہ کوشش کر رہی ہے تو سول سوسائٹی کے چند حلقوں کی طرف سے اس پر تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ وزارت تعلیم اور اس سے منسلک ماہرین البتہ اس کو ایک تاریخی تبدیلی کاآغاز قرار دے رہے ہیں۔
چونکہ نصابی ڈھانچے میں کلیدی تبدیلیاں روز روز نہیں کی جاتیں اس لیےاتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ضروری ہے کہ تمام مکتبہ فکر کے خدشات دور کیے جائیں اور ایسے تمام پہلو جن پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے ان کے جواب تلاش کر لیے جائیں۔
تین اہم سوال میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ مثلاً کیا ہمارے تعلیی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ واقعی نصاب ہی ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر یکساں نصاب لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو اس کی بنیاد کس نصاب کو رکھا جائے گا؟ اور آخری سوال کہ کیا حکومتی نظام اتنا مؤثر ہے کہ اس یکساں نظام کا اطلاق کرا سکے؟
کیا ہمارے تعلیمی نظام کا سارا مسئلہ نصاب تبدیل کرنے سے حل ہو جائے گا؟ تو جواب صاف ہے۔۔۔۔ نہیں۔
اس بات میں تو دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف یہ کہ عددی اعتبارسے ناکافی ہے بلکہ اگر معیار کی بات کریں تو ترقی یافتہ دنیا سے کوسوں پیچھے بھی ہے۔ سال 2020 میں اب بھی ہم بحیثیت قوم سو فیصد داخلے کے ہدف سے دور ہیں، خصوصاً لڑکیوں کے داخلے، لڑکوں کے داخلوں کی نسبت تشویشناک حد تک کم ہیں۔
داخلے کے بعد اگلا مرحلہ غیر حاضری اور سکول چھوڑنے کا ہے۔ اگر جیسے تیسے بچے بچیوں کا داخلہ ہو بھی جائے تو یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ وہ تعلیم مکمل کیے بغیر سکول نہیں چھوڑیں گے۔
پھر اس کے بعد بات آئے گی سر کاری اور کم آمدنی والے نجی سکولوں کی جن میں عمارات اور اس سے منسلک سہولیات ناکافی ہوتی ہیں۔ اچھے نجی سکولوں کی فیس مڈل کلاس کی بھی پہنچ سے باہر ہے اور انہی چند نجی سکولوں کو چھوڑ کر اساتذہ کا معیار اور مانیٹرنگ بھی محدود ہے۔ پھر امتحان لینے کا طریقہ زیادہ تر رٹے کو ہی فروغ دیتا ہے۔ اچھے سے اچھا نصاب بھی ان ہی سرکاری سکولوں اور انہی اساتذہ کے ہاتھوں میں پہنچنا ہے اور اسکے رٹے بھی اسی طرح لگنے ہیں جس طرح پہلے لگ رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سرکاری سکولوں کا اور اساتذہ کا معیار بہتر کیا جائے، فنی تعلیم کے نئے ادارے قائم ہوں اور بین الااقوامی سطح کی یونیورسٹیاں ہوں۔ خان صاحب خود شوکت خانم ہسپتال کے ساتھ ساتھ میانوالی میں واقع نمل کالج پر بھی فخر کرتے ہیں مگر سرکار میں ابھی تک ایسے معیاری اداروں کی طرف پیش رفت نظر نہیں آتی۔
دوسرا اہم سوال یکساں نصاب کا انتخاب ہے۔ کیا نجی سکولوں کا جدید نظام سب پر لاگو کر دیا جائے یا پھر سب کو مجبور کیا جائے کہ وہ سرکاری نصاب پڑھیں؟ پھر مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیےان کا نصاب یکسر تبدیل کر دیا جائے یا سرکاری نصاب میں ان مدرسوں کے مضامین شامل کر دیےجائیں؟ یہ وہ بینادی ایشوز ہیں جن پر سب سے زیادہ تحفظات ہیں۔
جدید تعلیمی اداروں کا نصاب ابھی تک ایک ماڈل کا کام کرتا ہے جو آہستہ آہستہ نیچے پہنچتا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک بنیادی نصاب جدید سکولوں میں بھی نافذ ہوگا۔ کیا یہ آگے کی طرف ترقی ہے یا پیچھے کا سفر؟
اورکیا یکسانیت کے نام پر جدید تعلیم کا راستہ رکے گا یا آگے بڑھے گا؟ بظاہر یکساں نصاب اور بہتر نصاب دو علیحدہ چیزیں نظر آہی ہیں جس میں ترجیح یکسانیت کے طرف ہے۔
آخری سوال حکومتی علمداری اور نفاذ ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے۔ کیا تمام حکومتیں اس پر مکمل عمل کریں گی۔ پھر ہمارے تعلیمی نظام کے ایک طرف مہنگے نجی ادارے ہیں اور دوسری طر ف مدرسے۔ کیا دونوں خوش دلی اور جلدی سے یکساں نصاب کو رائج کر دیں گے؟ ان دونوں باتوں کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
خدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں پرانے تجربوں کی طرح یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہ ثابت ہو اور فوائد کے بجائے حاصل نقصان اور ضیاع ہو
تعلیم کا نظام مؤثر اور مضبوط اداروں کے مرہون منت ہوتا ہے۔ جدید دنیا سکولوں سے لے کر ہارورڈ اورآکسفورڈ جیسے اداروں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ نصاب اداروں کی تشکیل کا ایک حصہ ضرور ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ، طریقہ تعلیم، امتحانات اور منسلک سہولیات کا کردار بنیادی ہے۔ مزید نصاب کی یکسانیت سے زیادہ اس کی بہتری اہم ہوتی ہے۔
خدشہ ہے کہ کہیں یکسانیت کے چکر میں ہم بہتری کو نہ کھو دیں۔