ترک جیلوں میں قیدیوں سے ناروا سلوک پر یورپی کونسل کی تنقید
ترک جیلوں میں قیدیوں سے ناروا سلوک پر یورپی کونسل کی تنقید
جمعہ 7 اگست 2020 14:22
ہیومن رائٹس واچ نے دو ماہ میں رپورٹ تیار کی ہے(فوٹو وال سٹریٹ)
یورپی کونسل کی جانب سے تشدد کی روک تھام کے لیے قائم کمیٹی(سی پی ٹی) نے ترکی کی جیلوں میں قیدیوں سے رکھے جانے والے ناروا سلوک پر تنقید کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے باعث ترک حکومت نے اپریل میں معافی کے قانون کا اطلاق کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 90 ہزار قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں مافیا سرغنہ کے علاوہ دہشت گردی کے الزام میں قید افراد بھی شامل تھے۔
یورپ کی اس کمیٹی کی جانب سے 5 اگست کو جاری ہونے والی دو رپورٹس کے مطابق ترکی کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک بھر کی متعدد جیلوں میں قید کئی لوگوں سے لیے گئے انٹرویوز کے بعد قائم کمیٹی کی جانب سے یہ رپورٹس جاری کی گئی ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے زیر تحویل ملزمان پر پولیس فورس کی جانب سے طاقت کے زیادہ استعمال، بدسلوکی اور جسمانی اذیت کے بارے میں جائزہ لیا ہے۔
بے شمار زیر حراست افراد نے بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں لاتیں، مکے اور تھپڑ مارے تاکہ پولیس مزید معلومات حاصل کر سکے یا پھر ملزمان سے اعتراف جرم کروا یا جا سکے۔
متعدد ملزمان کا دعویٰ ہے کہ انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور گالم گلوچ کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق استنبول میں موٹرسائیکل سوار پولیس اہلکاروں پر طاقت کے زیادہ استعمال اور جسمانی ایذارسانی کے متعدد الزامات لگائے گئے ہیں۔
جسمانی تشدد کے الزامات کی میڈیکل رپورٹس میں تصدیق کی گئی ہے۔ طبی ریکارڈ میں جسمانی چوٹوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں یا کمیٹی کے ارکان نے ملزمان کے ذاتی مشاہدے کئے ہیں۔
یورپ کی کونسل نے ناروا سلوک کی روک تھام کی پالیسی نافذ کرنے اور بعض سنگین جرائم کے لیے پولیس تحویل کے ابتدائی مرحلے کے دوران کسی وکیل تک رسائی پر قانونی پابندیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے صدر اوزرق ترکوگن نے کہنا ہے کہ ترکی قائم انسانی حقوق کے گروپوں کو جیلوں کی مانیٹرنگ کی اجازت دینے کا پابند ہے۔
انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’سی پی ٹی اور وزارت کی جانب سے جیلوں کا معائنہ کرنے اور کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فوری احتیاطی تدابیر کی گئی ہیں۔‘
رپورٹ میں یہ تنقید بھی کی گئی ہے کہ نئے آنے والے قیدیوں کے لئے لازمی طبی معائنوں کا نظام ناقص ہے۔ اسی طرح جیلوں میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے بستر وں کی بھی کمی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے کارکن اور کاروباری شخصیت عثمان کوالا نے 27 جولائی کو اپنی قید کے ہزار دن مکمل کیے جب کہ یورپ کی کونسل نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دسمبر میں جیل میں قید کرد سیاستدان صالحتان دیمیرتاس کو جیل کے سیل میں گر جانے کے بعد اسپتال لے جایا گیا۔
ان کے خاندانی ذرائع نے دعوی کیا کہ حکام نے ان کے علاج کے لیے تفصیلی معائنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔
ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے صدر اوزرق ترکوگن کےمطابق ترک جیلوں میں قیدی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں رکھے گئے ہیں۔ جیلوں میں سہولیات کی منصوبہ بندی کے مطابق قیدیوں کی گنجائش ایک لاکھ 65 ہزار ہے جبکہ جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ کے قریب ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو رائے کے اظہار کے ساتھ ساتھ جیل میں نابالغ بچوں کے ساتھ قید ماؤں کو رہائی دی جائے تاکہ زیادہ قیدیوں کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ شدید بیماریوں میں مبتلا 600 قیدیوں کو بھی رہا کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قیدیوں پر تشدد کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور قیدیوں کی برہنہ اسکریننگ کے طریقوں کو بھی روکا جانا چاہئے۔
کچھ قیدی جیسے کرد سیاستدان صالحتان دیمیرتاس جنوب مشرقی آبائی شہر دیار باقر سےسولہ سو کلومیٹر دور شمال مغربی علاقے کی جیل میں ہیں اور انہیں اہل خانہ سے دور رکھا گیا ہے یہ بھی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
قیدیوں کو اپنے کنبے کے ساتھ رابط رکھنے کی ضرورت ہے لیکن جب آپ رہائشی علاقے سے میلوں دور کسی قیدی کو ڈال دیتے ہیں تو اس سے ان کے رشتے داروں کی زندگیاں بھی پیچیدہ ہوجاتی ہیں۔
ان واقعات سے متعلق استنبول میں ہیومن رائٹس واچ نے دو ماہ میں تیار کی گئی فوٹو ، ویڈیوز اور قانونی اور طبی دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ بھی گذشتہ ہفتے جاری کی تھی۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیس اور جیل محافظوں نے دیار باقر اور استنبول میں چھ واقعات میں کم از کم 14 افراد کے ساتھ سنگین زیادتی کی ہے۔
کرد نوازعوامی جمہوری پارٹی (ایچ ڈی پی)کے سیاستدانوں نے ترکی میں تشدد یا بدسلوکی سے متعلق باقاعدہ تحریری پارلیمانی سوالات بھی جمع کروائے ہیں تاحال وزرات داخلہ یا وزارت انصاف کی جانب سے ان سوالات کاجواب نہیں مل سکا ہے۔