سعودی عرب کے جنوب مغرب میں واقع جازان کے باشندے چٹانیں تراشنے اور انہیں اپنی رہائش اور آسائش میں تبدیل کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اب سے 80 برس قبل جازان کے سلا پہاڑ میں دیوہیکل چٹان کو تراش کر بیٹھک میں تبدیل کرکے ہموطنوں ہی نہیں یہاں آنے والے سیاحوں کو بھی ششدر اور حیران کردیا۔
العربیہ نیٹ کے مطابق اب سلا پہاڑ کی یہ بیٹھک سیاحوں اور اہل جازان سے ملنے کے لیے آنے والے احباب اور رشتہ داروں کی تفریح گاہ بن گئی ہے۔ لوگ یہاں آتے ہیں۔ گپ شپ کرتے ہیں اور قہوہ نوش کرکے یادگار تصاویر بنا کر رخت سفر باندھتے ہیں۔
جازان علاقے کے سلا پہاڑ میں واقع یہ بیٹھک ’مجلس الصخرۃ‘ کہلاتی ہے۔ الصخرۃ مجلس یا بیٹھک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
احمد قاسم الجابری نے پہاڑی بیٹھک کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا تصور میرے والد کے ذہن میں اس وقت آیا تھا جب مکان کی تعمیر پر بڑی لاگت آتی تھی۔ مکان بنانے میں بڑا وقت لگتا اور بڑی مشقت اٹھانی پڑتی تھی۔‘
’اس زمانے میں مکانات چٹانوں سے تیار کیے جاتے تھے۔ چٹانوں کو چوکور شکل دے کر ایک کے اوپر ایک چٹان رکھ دی جاتی تھی۔ ایک مکان تقریبا 5 برس میں تیار ہوتا تھا۔ چھت درختوں کی لکڑیوں سے بنائی جاتی تھی۔ اس پر بڑی لاگت آتی تھی۔ بارش اور آندھی کی وجہ سے لکڑیوں والی چھت زیادہ مدت تک نہیں چلتی تھی۔ خاندان بڑا ہوا تو والد کو بچوں کے لیے ایک اور مکان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سب سے آسان حل یہی نظر آیا کہ گھر سے ملی ہوئی دیوہیکل چٹان کو رہائش میں تبدیل کرلیا جائے۔‘
الجابری نے بتایا کہ ان کے والد نے1941 میں چٹان کو تراشنا شروع کیا۔ ’پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی مدد سے تین برس تک چٹان تراشنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارے علاقے میں پڑوسی اور رشتہ دار اس قسم کے مواقع پر ایک دوسرے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں جسے یہاں ’اعانۃ‘ کی رسم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چٹان تراش کر لکڑی کا دروازہ نصب کیا گیا۔ 1970 تک اس میں قیام کیا گیا اور پھر اسے پہاڑی بیٹھک میں تبدیل کردیا گیا تبھی سے یہ المجلس الصخری (پہاڑی بیٹھک) کے نام سے مشہور ہوگئی۔‘
الجابری نے بتایا کہ اس زمانے میں چٹان تراشنے کا کام دن میں تین مراحل میں انجام دیا جاتا تھا۔ چٹان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ گرج چمک اور بارش سے تحفظ فراہم کرتی۔ موسم گرما میں اندر کا موسم ٹھنڈا اور سردی کے موسم میں گرم رہتا ہے۔
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں