Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آتش فشاں کے دہانے پر صدیوں پرانا سعودی گاؤں طابہ

تین دہائیاں قبل ہی زمین میں شگاف نمودار ہونے لگے تھے۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کے شمالی علاقے حائل میں موجود  گاوں طابہ اور اس کے اردگرد کا علاقہ آتش فشاں کے دہانے پر رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 1983 میں اس بات کا اندازہ لگایا گیا جب گاوں میں رہنے والوں نے محسوس کیا کہ زمین دھنسنا شروع ہو گئی ہے اور مختلف جگہوں پر دراڑیں اور شگاف پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔
طابہ نامی گاوں کے باسیوں کو جب اس حقیقت کا علم ہوا کہ وہ صدیوں سے ایک آتش فشاں کے دہانے میں رہ رہے ہیں چنانچہ انہوں نے گاوں سے انخلا شروع کر دیا۔

علاقے میں اگر سیاحتی سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ خطہ حائل میں سیاحتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہو سکے گا۔
یہ گاوں شمالی سعودی عرب کے سلمیٰ نامی پہاڑوں میں واقع ہے جو امن اور ہم آہنگ کی کامل عکاسی کرتا تھا۔
گاوں کے باشندوں نے بتایا کہ انہیں علاقے میں زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس ہوتے تھے  اور زمین میں جا بجا  دراڑیں بھی نظر آتی تھیں مگر کوئی اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔

1980 کی دہائی میں صورتحال اس وقت بد تر ہوگئی جب علاقے میں ایک ترقیاتی منصوبے کا آغاز ہوا اور ایک اسفالٹ کمپنی نے یہاں سڑکوں کی تعمیر شروع کی اور اس مقصد کے لئے زیرِ زمین موجود پانی نکالنا پڑا۔
اس دوران پانی کے حجم اور مقدار میں تبدیلی واقع ہوئی اور انجام کار سلسلہ وار بلند آوازیں نمودار ہونے لگیں، زمین بھی دھنسنے لگی جس کے باعث متعدد مکانات تباہ ہو گئے۔
اس صورتحال کے پیش نظر حکومت نے گاوں کے رہائشیوں کے انخلا اور نقصان کی تلافی کے لئے انہیں آتش فشاں زون سے دور مکانات فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

طابہ میں پیدا ہونے والے 70سالہ خلف نایف الحشر نے بتایا کہ طابہ، شمالی سعودی عرب کا اہم اور معروف علاقہ تھا اور اس کے لوگ اپنی رحمدلی اور شفقت کے باعث جانے جاتے تھے۔
اس نے بتایا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب طابہ کی زمین میں دراڑیں نمودار ہوئیں۔ اس وقت اس گاوں کی آ بادی 1500افراد پر مشتمل تھی تاہم جب متعدد گھر تباہ ہو گئے تو لوگوں کو وہاں سے نکالا گیا اور انہیں ’’نئے طابہ‘‘ میں بسا دیا گیا۔
ماضی میں زیر زمین پانی کے استعمال کے باعث توازن میں پیدا ہونے والے کسی خلل سے یہ گاوں متاثر نہیں ہوا تھا تاہم جب لوگوں نے زراعت کے لئے پانی کے پمپ و دیگر آلات کا استعمال شروع کیا تو پانی کا توازن متاثر ہوا، زمین دھنسنے لگی اور بالآخر زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگے۔

طابہ اپنے زیر زمین پانی کے باعث مشہور تھا ۔ اسفالٹ کمپنی پانی کی بڑی مقدار استعمال میں لاتی تھی۔ علاقے کے لوگوں نے کمپنی کو پانی فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔
الحشر نے بتایا کہ مجھے اُس وقت زمین سے نمودار ہونے والی بلند آوازیں آج  بھی یاد ہیں۔ طابہ میں زلزلے بھی آئے اور پھر زمین دھنسنے لگی۔
وہاں ایسے گھر آج بھی موجود ہیں جن کی دیواروں میں شگاف پائے جاتے ہیں۔
الحشر نے کہا کہ سعودی حکومت نے بروقت  اقدامات کیے۔ مختلف ایجنسیوں نے فوری کام کرتے ہوئے تباہ ہونے والے  250 گھروں کا معائنہ کیا اور طابہ کے تمام رہائشیوں کو 3 کلومیٹر دور نئے طابہ میں آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔

طابہ کے ایک اور رہائشی 57 سالہ حمد نے بتایا کہ گاوں میں تین دہائیاں قبل ہی زمین میں شگاف نمودار ہونے لگے تھے تاہم صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب زیر زمین پانی منصوبے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔
چند دنوں میں ہی زیرزمین پانی کے ذخائر معدوم ہوگئے۔ یہاں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے پانی کی کمی ہورہی تھی۔ اس عدم توازن کے باعث زمین میں شگاف پڑنے لگے۔
ماہر ارضیات مبارک السلامہ نے بتایا  ہے کہ مملکت اور بیرونِ مملکت سے آنے والے سیاحوں کے لئے طابہ گاوں انتہائی دلچسپی کا باعث تھا۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں اگر سیاحتی سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ خطہ حائل میں سیاحتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہو سکے گا۔
یہی نہیں بلکہ ہمیں قریب ہی واقع سلمیٰ پہاڑیوں کی اہمیت پر بھی توجہ دینی ہوگی جو پیرا گلائیڈنگ، ہائیکنگ اور کوہ پیمائی جیسی سرگرمیوں کے لئے نہایت موزوں ہیں۔
ان کے ساتھ ہی شہر فاید اور درب زبیدہ میں اسلامی اور تاریخی سیاحت کے مقامات بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
 
 

شیئر: