Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جے یو آئی حالیہ اندرونی بحران پر قابو پا لے گی؟

مولانا شیرانی اور ان کے حمایتی ارکان یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن پارٹی سے مشاورت نہیں کرتے۔ فوٹو: اے ایف پی
 
سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) اس وقت قومی منظرنامے پر خاصی اہم حیثیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے امیر مولانا فضل الرحمن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور حکومت کے خلاف تحریک کی  قیادت کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں جماعت کے سینیئر رہنماؤں مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دیگر کی جانب سے پارٹی پالیسی سے اعلانیہ اختلاف نے اس انتہائی منظم سمجھی جانے والی جماعت کو ایک بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔
آج جمعرات کو پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اختلافی بیانات کے حوالے سے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ اور صوبائی عہدیداران کا اجلاس بھی ہو رہا ہے جس کے بعد اہم اعلانات متوقع ہیں۔ کیا جماعت اس بحران سے نکل آنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

 

اس جماعت کے قیام کے مقاصد کیا تھے؟ تاریخی طور پر جماعت نے انڈیا اور پاکستان کی سیاست میں کیا کردار ادا کیا؟ اردو نیوز نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

متحدہ ہندوستان میں سامراج دشمن پہچان

 جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد 1919 میں متحدہ ہندوستان میں رکھی گئی تھی  تاہم اس وقت اس کا نام جمعیت علمائے ہند رکھا گیا تھا۔ اس کے بانی رہنماوں میں مولانا محمود الحسن، مولانا عبیداللہ سندھی، مفتی کفایت اللہ جیسے دیوبند  مکتبہ فکر کے چوٹی کے علما شامل تھے۔
سینیئر صحافی اور اینکرپرسن حامد میر کے مطابق جمعیت علمائے ہند ایک سامراج دشمن اور برطانوی قابض حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ اس کے رہنماؤں کو انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں مالٹا میں بھیج کر سزا دی گئی۔ اس جماعت نے ریشمی رومال تحریک چلائی اور ہندو، مسلم اور سکھ اتحاد بنا کر سیکولر پہچان بنائی۔ جماعت کی اکثریت برصغیر کی تقسیم کی مخالف تھی  اور اس کو انڈیا کی جماعت کانگریس کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی مخالفین جماعت کو پاکستان کے قیام کی مخالفت کا طعنہ دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کو انتہائی زیرک سیاست دان سمجھا جاتا ہے جو حالات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

جمعیت علمائے اسلام کا ایک حصہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں 1945 میں ہی اس سے الگ ہو گیا جس نے پاکستان کی  آزادی کی تحریک میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے ساتھ حصہ لیا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے جماعت کا نام بدل کر جمعیت علمائے اسلام کر دیا۔ جماعت کے پاکستان کے حامی حلقے کو تھانوی گروپ کہا جاتا تھا اور متحدہ ہندوستان کے حامی حلقے کو مولانا حسین احمد مدنی  کی مناسبت سے مدنی گروپ کہا جاتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد حکومتوں میں شمولیت اور سیاسی کردار

قیام پاکستان کے بعد جماعت دودھڑوں میں تقسیم رہی تاہم 1956 میں دونوں دھڑوں میں اتفاق ہوگیا اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت مولانا احمد علی لاہوری نے سنبھال لی۔
جمعیت علمائے اسلام کا حقیقی معنوں میں سیاسی کردار 1962 میں  موجودہ سربراہ  مولانا فضل الرحمن کے والد  مفتی محمود کے منظر عام پر آمد کے ساتھ شروع ہوا جنہوں نے جماعت کو سیاسی طور پر فعال کیا اور اس وقت کے فوجی صدر جنرل ایوب کے آخری دونوں میں مارشل لا کے خلاف بھی تحریک چلائی۔
صحیح معنوں پاکستان کی سیاست میں جے یو آئی کی دھوم 1970 کے انتخابات میں ہوئی جب مغربی پاکستان میں ایک بڑی جماعت کے طورپر ابھری ۔ انتخابات کے بعد  1972 میں جمعیت علمائے اسلام نے قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ساتھ اتحاد کر کے صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں حکومتیں بنا لیں اور مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ سرحد بن گئے جبکہ نیپ رہنما عطا اللہ مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جماعت براہ راست حکومت میں آئی۔ حامد میر کے مطابق یہ ایک ثبوت ہے کہ جے یو آئی کا پہلا اتحاد لبرل اور سیکولر جماعت کے ساتھ تھا۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی صوبائی اسبملیوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جمعیت کے رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ مفتی محمود کے وزیراعلیٰ بنتے ہی جمعیت علمائے اسلام کے منشور پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ شراب پر پابندی عائد کی گئی۔  پختون آبادی کا اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود صوبہ کی سرکاری زبان اردو قرار دی گئی اور ہفتہ وار تعطیل اتوار کی بجائے جمعہ کو قرار دی گئی تاہم ان کا دور اقتدار نو ماہ سے  زیادہ نہ چل سکا اور فروری 1973 میں اس وقت کے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو کی جانب سے بلوچستان میں اپنی اتحادی نیپ کی حکومت کی برطرفی پر احتجاجا مفتی محمود بھی وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہو گئے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے ایک رکن اسماعیل حسنی جو پارٹی کے نشیب وفراز پر ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں کا کہنا تھا کہ مفتی محمود نے یوں تو نیپ کی حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاجا استعفی دیا تھا مگر یہ بات درست ہے کہ ان کی حکومت ناکام رہی تھی۔ اسماعیل حسنی کے مطابق اقتدار علما کے بس کا روگ نہیں اور بیورو کریسی اور دیگر گھاگھ سیاستدانوں نے مفتی محمود کے لیے حکومت چلانا مشکل کر دیا تھا۔
اسماعیل حسنی جو اس وقت مولانا فضل الرحمن کے مخالف دھڑے مولانا شیرانی کے کیمپ میں ہیں کا کہنا ہے کہ مفتی محمود تیز مزاج کے حامل تھے اور وہ پارٹی کے  عہدے کے ساتھ ساتھ حکومتی عہدہ رکھنے پر تنقید کا شکار ہوئے تو انہوں نے تنقید کرنے والے کارکن کی بنیادی رکنیت معطل کر دی جس کی وجہ سے ان کا اپنی پارٹی کے سینیئر رہنما مولانا غلام غوث ہزاروی سے اختلاف پیدا ہوگیا۔ اسماعیل حسنی کے مطابق مولانا فضل الرحمن اپنے والد کے مقابلے میں خاصے متحمل مزاج ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اختلافات کے باجود اب تک مولانا شیرانی کو برداشت کیے رکھا ہے۔

1997 کے انتخابات میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک بھی چلائی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

مولانا غلام غوث ہزاروی رکن اسمبلی کے طور پر ستر کی دہائی میں مولانا مفتی محمود کی پالیسی سے اعلانیہ اختلاف کرتے تھے۔ تاہم حامد میر کے مطابق سیاسی طور پر سمجھدار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا غلام غوث ہزاروی کو ساتھ ملا لیا تھا اور پارٹی میں پھوٹ ڈال دی تھی۔ ان کے مطابق 1973 کے آئین کی تشکیل اور مشترکہ منظوری میں مفتی محمود کا اہم کردار تھا جس پر مولانا فضل الرحمن اب تک کریڈٹ لیتے ہیں۔
اس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر اپوزیشن نے تحریک چلائی تو مفتی محمود اس کے روح رواں تھے اور اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات میں بھی حصہ لیا تاہم جب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اسی دن فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام نے ضیاالحق کی حمایت سے انکار کیا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) اتحاد کی بنیاد رکھی۔ اتحاد کی تشکیل ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسی دوران 1980 میں مفتی محمود کی وفات ہوگئی اور ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن ایم آر ڈی کے اجلاس میں شریک ہوگئے اور اس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

جے یو آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی تاریخ ہے

صحافی حامد میر کے مطابق جے یو آئی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی کی ایک تاریخ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی ایم آر ڈی اجلاس میں شرکت کا بدلہ جنرل ضیا الحق نے جے یو آئی کو تقسیم کر کے دیا اور نتیجے میں عبداللہ درخواستی کی سربراہی میں ایک اور دھڑا بن گیا۔ گو کہ سمجھا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا افغانستان کے مجاہدین میں اثر ورسوخ تھا تاہم روس کے خلاف لڑائی میں مولانا فضل الرحمن گروپ نے کھل کر ضیا الحق کا ساتھ نہیں دیا اور خود کو زیادہ تر روس مخالف جنگ سے الگ ہی رکھا۔

جمعیت علمائے اسلام نے نومبر 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مبصرین کے مطابق اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ تاریخی طور پر مولانا عبیداللہ سندھی کے دور سے لے کر جمعیت علمائے اسلام سوشلزم کی حامی اور کیپٹلزم کے خلاف رہی اور خود کو امریکی حمایت سے دور رکھا۔ تاہم بعد میں وکی لیکس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ مولانا فضل الرحمن نے 2007 میں پاکستان میں اس وقت کی امریکی سفیر اینی پیٹرسن سے  پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ ملاقات میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کو سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں ڈالنے چاہئیں جس سے ان کی مراد پیپلزپارٹی کے لیے مبینہ امریکی حمایت تھی۔
 ان کے مطابق جب 1988 میں پیپلز پارٹی کے خلاف  اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا مگر پارٹی کا دوسرا دھڑا مولانا سمیع الحق کی قیادت میں نہ صرف اس کا حصہ بنا بلکہ مولانا سمیع الحق اتحاد کے نائب صدر بن گئے۔ اسی طرح جب 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں  اور انہوں نے غلام اسحق خان کو صدارت کا امیدوار نامزد کیا تو مولانا فضل الرحمن نے ان سے اختلاف کیا کہ غلام اسحق اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں اس لیے انہوں نے بزرگ جمہوریت پسند سیاستدان نوبزادہ نصراللہ کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ 
1993 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور جے یو آئی اتحادی بن گئے اور مولانا فضل الرحمن کو خارجہ امور کمیٹی کا چئیرمین بنا دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو رہی تھی اور ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق کی وجہ سے فضل الرحمن کا اثر و رسوخ پاکستانی حکومت کے لیے خاصا مفید ہو سکتا تھا۔

مشرف دور حکومت کے اختتام کے قریب اس وقت کی اپوزیشن نے بھی استعفوں کے آپشن پر غور کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

فضل الرحمن کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو اس وقت ٹھیس پہنچی تھی جب ان کے بنائے گئے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) نے 2002 کے انتخابات کے بعد جنرل مشرف کو لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے غیر آئینی اقدامات پر قانونی تحفظ فراہم کیا۔ اسی دوران ایم ایم اے نے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی اور جے یو آئی کے ایک اور رہنما اکرم درانی صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے ۔ یہ حقیقی معنوں میں مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا عروج تھا جب ایک صوبے میں ان کی حکومت تھی جبکہ صوبہ بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت کا حصہ تھے اور وفاق میں ان کی حمایت کے بغیر کوئی آئینی ترمیم ممکن نہیں تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھی ان کے ساتھ ہر وقت مذاکرات کے متمنی رہتے تھے۔
2008 کے انتخابات کے بعد گو کہ ان کی جماعت کو ویسی اکثریت نہ مل سکی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو مولانا فضل الرحمن حکومت کے ایوانوں میں اکثر نظر آئے۔

نواز شریف کے خلاف تحریک سے ان کے اتحادی تک

اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کے طور پر اس وقت مولانا فضل الرحمن سابق وزیراعظم نواز شریف کے سب سے بڑی اتحادی ہیں تاہم 1997 کے انتخابات میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک بھی چلائی تھی۔ حامد میر کے مطابق وہ تحریک بھی اسی طرح تھی جس طرح آج کی حکومت کے خلاف تحریک ہے۔ حتیٰ کہ ستمبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان سے گرفتار بھی کر لیا تھا تاہم اسی سال اکتوبر میں ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ گیا اور نواز شریف حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔

عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جتنی جمہوریت جے یو آئی میں ہے وہ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت میں نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

آج اپوزیشن جماعتیں جس طرح حکومت کے خلاف استعفوں کے آپشن پر غور کر رہی ہیں مشرف دور حکومت کے اختتام کے قریب اس وقت کی اپوزیشن نے بھی اس آپشن پر غور کیا تھا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جے یو آئی کے وزیراعلیI اکرم درانی نے کہا تھا کہ باقی جگہوں سے اپوزیشن چاہے استعفے دے دے مگر وہ اپنی صوبائی حکومت برقرار رکھنا چاہیں گے۔ آج اسی دوراہے پر پاکستان پیپلز پارٹی کھڑی ہے جسے استعفوں کی صورت میں سندھ حکومت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
اس سلسلے میں جب اردو نیوز نے جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل غفور حیدری سے پوچھا کہ وہ نواز شریف کی مخالفت سے حمایت تک کیسے آ گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے ہر حکومت کے اچھے کام کا ساتھ دیا اور برے کام پر تنقید کی چاہے وہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ نواز کی ماضی کی حکومتیں۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ان کی پارٹی کا نظریاتی اختلاف ہے ان سے سوچ اور عقیدے کا اختلاف ہے۔ وہ ملک پر مغربی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

کیا مولانا فضل الرحمن اپنی پارٹی کے جمہوری لیڈر ہیں؟

مولانا شیرانی اور ان کے حمایتی ارکان یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن پارٹی سے مشاورت نہیں کرتے اور اپنی من مانی کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق پارٹی کے تین اہم ادارے ہیں۔ مجلس عمومی، مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ۔ اس میں سب سے اہم مجلس عمومی ہے جو تحصیل سے لے کر مرکز تک نمائندگی رکھتی ہے اور پارٹی قیادت کا الیکٹورل کالج بھی ہے۔ مجلس شوریٰ ہر سطح کی لیڈر کی کچن کیبنٹ ہوتی ہے جس کا انتخاب بھی مجلس عمومی سے ہی کیا جاتا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ تعداد 45 ہو سکتی ہے۔ جبکہ مجلس عاملہ  ہر سطح پر پارٹی کے عہدیداران پر مشتمل ہوتی ہے۔ پارٹی میں پہلے ہر تین سال بعد الیکشن ہوتے تھے جبکہ 2015 میں دستوری ترمیم کے ذریعے انتخابات کا درمیانی وقفہ پانچ سال کر دیا گیا ہے۔
 مولانا شیرانی کے حامی پارٹی رکن اسماعیل حسینی تو اس حد تک کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن پارٹی انتخابات میں اپنی مرضی کے مجلس عمومی ارکان، الیکشن کمشنر چن کر اور مخالفین کو ان کے ذریعے راستے سے ہٹا کر 1995 سے مسلسل پارٹی پر اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے 1995 کے جماعتی انتخابات میں سینیئر رہنما حافظ حسین احمد کا راستہ روکا اور انہیں بلوچستان سے پارٹی کی بنیادی رکنیت ہی حاصل نہیں کرنے دی جس کی وجہ سے وہ پارٹی کے الیکٹورل کالج (یعنی مجلس عمومی) کے رکن ہی نہ بن سکے۔ اسی طرح ان کے مطابق 1995 میں پارٹی کے سینیئر ترین رہنما مولانا شیرانی امارت کے مضبوط امیداوار تھے اور ان کی بلوچستان میں مضبوط سیاسی حثیت کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن ان سے خائف تھے اس لیے انہوں نے پارٹی اجلاس میں دلچسپ طریقے سے ان کا راستہ روکا۔ جمیعت کے دستور کے مطابق کوئی شخص خود اپنے آپ کو صدارت کے لیے نامزد نہیں کر سکتا اس لیے اجلاس کے دوران دوسرے کسی دوسرے شخص کو آپ کا نام پیش کرنا ہوتا ہے جس کی دو مزید ارکان تائید کرتے ہیں تو آپ عہدے کے امیدوار بن جاتے ہیں۔
اسماعیل حسینی کے مطابق اس وقت مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک حامی رکن سے کہا کہ وہ مولانا شیرانی کا نام صدارت کے لیے پیش کریں۔ چنانچہ ان کا نام پیش کر دیا گیا ۔ تاہم کچھ دیر بعد نام پیش کرنے والے نے نام واپس لے لیا اور پارٹی دستور کے مطابق جس امیدوار کا نام ایک بار واپس لے لیا جائے اس کا نام دوبارہ امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یوں مولانا فضل الرحمن ہی جیت گئے۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ مولانا کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی پارٹی بلوچستان میں حکومت سے باہر ہوگئی جبکہ 1970 سے لے کر 2013 تک یہ جماعت بلوچستان میں زیادہ تر حکومت میں ہی رہی ہے۔
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے پارٹی کے مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جتنی جمہوریت جے یو آئی میں ہے وہ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت میں نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تنقید کرنے والے پارٹی کا نظم نہیں سمجھتے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پارٹی کی باقاعدہ رکن سازی ہوتی ہے پھر وہ الیکشن کے ذریعے ہر سطح کی مجلس عمومی بنتی ہے۔ تحصیل کی سطح کی مجلس عمومی ضلع کی سطح کے لیے مجلس عمومی کے ارکان منتخب کرتی ہے پھر اسی طرح مرکز تک مجالس عمومی بنتی ہیں جو کہ بعد میں مرکزی عہدیداران کا انتخاب کرتی ہیں۔
عبدالغٖفور حیدری کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ کے اراکین کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ ہر مرکزی رکن تین ہزار ابتدائی ارکان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس طرح جماعت کے رجسٹرڈ اراکین کی تعداد 30 لاکھ بنتی ہے۔ اس طرح کے الیکشن باقی جماعتوں میں نہیں ہوتے۔
سینیئر صحافی حامد میر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ جے یو آئی کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے انتخابات کا نظام کافی شفاف ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پارٹی پر ایک تنقید تواتر سے ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی عطا الرحمن  پارٹی کے صوبائی سربراہ ہیں ان کے بیٹے اسد محمود رکن اسمبلی ہیں اور رشتہ دار اہم عہدوں پر ہیں تو جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز پر ایک خاندان کی اجارہ داری ہے اس طرح اس جماعت پر بھی ایک خاندان حاوی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بات صلاحیت کی ہوتی ہے۔ ’موروثی سیاست کی رٹ تو ہر کوئی لگاتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ہر پارٹی میں باصلاحیت افراد کو آگے آنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت تمام جماعتوں کی قیادت کر رہے ہیں ایسی صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ کسی کا بیٹا اگر باصلاحیت ہے تو وہ کیوں سیاست میں نہ آئے جس طرح بلاول بھٹو صلاحیت کے ساتھ اپنی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اس میں کیا حرج ہے۔

کیا پارٹی موجوہ بحران سے نکل آئے گی؟

مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ پارٹی جمعرات کے اجلاس میں مولانا شیرانی کے اسرائیل کے حوالے سے سامنے آنے والے بیان کا جائزہ لے گی تاہم اس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور پی ڈی ایم تحریک کے حوالے سے غور وخوض ہے۔
اس سوال پر کہ پارٹی کے اندر سے مولانا فضل الرحمن کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، اب بھی جائیں گے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جماعت اسلامی میں بھی تقسیم ہوئی۔ پیپلزپارٹی میں بھی اختلافات سامنے آئے۔ جے یو آئی میں بھی سمیع الحق دھڑا الگ ہو گیا مگر جماعت قائم رہی۔

شیئر: