غزہ میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا پوسٹر لگانے اور پھاڑنے پر تنازع
غزہ میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا پوسٹر لگانے اور پھاڑنے پر تنازع
جمعہ 1 جنوری 2021 16:59
قاسم سلیمانی 3 جنوری 2020 کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کی قدس فورس کے قتل ہونے والے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کا ایک پوسٹر جو غزہ شہر کے ایک بل بورڈ پر لگایا گیا تھا، کو ان کی پہلی برسی سے چند روز قبل پھاڑ دیا گیا۔
جنرل قاسم سلیمانی 3 جنوری 2020 کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
غزہ کے پوسٹر پر ’یروشلم کا شہید‘ کا جملہ درج تھا، یہ جملہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے کے روز کہا تھا۔
حماس نے گذشتہ چند برسوں کے دوران عوامی سطح پر ایران کی تعریف کی ہے کیونکہ وہ اس تحریک کی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کا سب سے نمایاں حامی ہے۔
لیکن دوسری جانب فلسطینی اور عرب شہری دونوں جنرل سلیمانی کو ایک جنگی مجرم کے طور پر دیکھتے ہیں، جو عراق اور شام میں براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے ان ممالک کے شہریوں کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔
غزہ میں جنرل قاسم سلیمانی کا پوسٹر ایک ایسے نامعلوم گروہ نے لگایا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حماس اور ایران کے حمایت یافتہ دھڑوں سے وابستہ ہے۔
اس واقعے کے بعد حماس کی سکیورٹی فورسز نے شیخ مجدی المغربی کو گرفتار کیا ہے، جو اس گروہ میں سب سے آگے تھے جس نے اس پوسٹر کو پھاڑا تھا۔
المغربی نے فیس بُک پر لکھا کہ ’ہر ہیرو غزہ کی سرزمین سے اس شرم کو دُور کرسکتا ہے۔ وہ ان پوسٹرز کو دُھندلا کر دے، چیر دے اور مسخ کر دے۔‘
جنرل قاسم سلیمانی کا یہ پوسٹر ایک ایسے وقت میں لگایا گیا جب غزہ کی پٹی میں ایک فوجی مشق میں حماس اور 12 فوجی ونگز شریک تھے، جن میں زیادہ تر ایرانی حمایت کو تسلیم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ چند دن قبل حماس کے اہم رہنما محمود الزہر نے کہا تھا کہ 2006 میں جب وہ غزہ کے وزیر خارجہ تھے تو قاسم سلیمانی نے ان سے پہلی ملاقات کے دوران انہیں 22 ملین ڈالر دیے تھے۔
پیپلز پارٹی کے سیاسی بیورو کے ایک رکن ولید الاعواد نے کہا ہے کہ اس وقت قاسم سلیمان کی تصاویر کی نمائش غیر ضروری ہے اور اس کا غزہ پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ اس سے یا تو ہمیں اسرائیل کے ہاتھوں قیمت ادا کرنا ہوگی یا پھر عرب ممالک سے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔
’قاسم سلیمانی کی تصویر کو اٹھانا ایک ایسا اقدام ہے جس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا اور غزہ کو ایرانی دہشت گردی کے دائرے میں شامل کیا جائے گا۔‘