سعودی جزیرہ فرسان کا ورثہ بحراحمر کے نایاب موتی
جسامت کے لحاظ سے مختلف موتیوں کی قیمت ڈیڑھ لاکھ 50 ریال تک ہوتی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
بحر احمر کے جزیرہ فرسان میں بسنے والے غوطہ خور افراد سمندر میں موتیو ں کی تلاش میں سرگرداں رہا کرتے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ غوطہ خور سمندر میں30میٹر کی گہرائی تک چلے جاتے اور 5 منٹ تک سانس روک کر زیر آب خزانے کے نایاب موتی ڈھونڈ کر لاتے تھے۔ ان موتیووں میں سے اکثر کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ریال تک بھی ہوتی تھی۔
جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی خطے میں بسنے والے لوگوں کی کئی نسلوں کے لئے سمندر سے موتیوں کی تلاش ایک ایسی صنعت تھی جو انتہائی عروج پر تھی۔
کئی تاریخ دان اس ا مر پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ کم از کم 400 برس پہلے کا دور تھا۔ ہندوستان جیسے دور افتادہ ممالک سے تاجر خالص ترین موتیوں کی تلاش میں خلیج عرب کا سفر کرتے تھے۔
مشرقی صوبے میں موتیوں کی یہ صنعت جانی پہچانی ہے۔ مملکت نے اپنے ورثے کو دوبارہ دریافت کیا ہے اور اس کی روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کی جانب توجہ مرکوز کی ہے جو فرسان میں نایاب موتی تلاش کرنے والے غوطہ خوروں پر نئی روشنی ڈال رہی ہے۔
جنوب مغرب کے سعودی ساحلوں سے دور بود و باش رکھنے والے خاندانوں کی کئی نسلوں تک یہ سلسلہ جاری رہا کہ موتیوں کی تلاش میں کئی ماہ کے لئے سفر پر روانہ ہونے والے افراد کو الوداع کہتے تھے۔
موتیوں کی صنعت نے اپنی شناخت قائم کی مگر آج یہ دم توڑ رہی ہے۔ ایک ایسی صنعت جو کسی وقت میں تمام برادری کی محنت شمار ہوتی تھی ، ان میں موتیوں کے سوداگر اور غوطہ خور، بادبانی جہازوں کے کپتان، کشتی ساز، لکڑی کے تاجرشامل تھے، آج یہ سب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
ایک ماہر سلیمان بالعوص نے کہا کہ قرآن کریم میں بھی موتیوں کاذکر فرمایاگیا ہے کہ جنت میں رہنے والوں کو موتیوں سے مزین کیاجائے گا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کسی دور میں فرسان اس خطے میں موتیوں کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی موتیوں کو پالش کرنے یا ان کی چمک برقراررکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایک بڑی ڈش میں بارش کا پانی جمع کیاجائے اور اس میں موتیوں کو دھویاجائے۔
اس طرح موتی انتہائی خوبصورت انداز میں اپنی اصل چمک دمک دوبارہ حاصل کر لیں گے۔
موتی اس وقت بنتا ہے جب کوئی گھونگا اپنے خول کے اندر کسی بیرونی شے یا حملہ آورکے خلاف رد عمل ظاہر کرتا ہے اور اس کے گرد ایک جھلی بنا دیتا ہے جو بعد ازاں موتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
جسامت کے لحاظ سے موتیوں کے الگ الگ نام ہوتے ہیں۔ ریت کے ذرے سے ذرا بڑی جسامت کے موتی ’’دقہ‘‘ کہلاتے ہیں،ان سے ذرا بڑے ’’انصر‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس سے بڑے المزوری اور اس سے بڑی جسامت والے موتی’’التلا‘‘ کہلاتے ہیں جبکہ سب سے بڑی جسامت والے ’’دناس‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی قیمت ہزار ریال سے لے کر ڈیڑھ لاکھ 50 ریال تک ہوتی ہے۔
فرسان کے موتیوں کے تاجر محمد ہادی نے بتایا کہ پرانے وقتوں میں موتیوں کی تلاش اس وقت شروع ہوئی جب غوطہ خور ’’صدف‘‘ تلاش کرنے کے لئے سمندر میں غوطہ زن ہوتے تھے۔اسے مقامی زبان میں ’’بلبل‘‘ کہا جاتا تھا۔
روایتی انداز میں موتیوں کے معیار کا پتہ لگانے کے لئے محمد ہادی تانبے کی چھلنی استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے بڑے، درمیانے اور چھوٹی جسامت کے موتی علیحدہ کئے جاتے ہیں۔
موتی کا وزن معلوم کرنے کے لئے وہ قیمتی پتھر اور یمنی عقیق پر مشتمل اوزان استعمال کرتے ہیں۔
موتیوں کے ماہر ، مصنف ابراہیم مفتاح نے کہا کہ فرسان میں موتیوں کی تلاش کا سلسلہ اس لئے اہمیت اختیار کر گیا تھا کیونکہ وہاں کسی بھی غوطہ خور کی مردانگی کی پیمائش اس کی مہارت سے کی جاتی تھی۔
ماضی کے دور میں نہ تو آکسیجن سیلنڈر ہوتے تھے اور نہ ہی غوطہ خوری کے جدید آلات۔ اس کے ساتھ سمندری شکاریوں کا ڈر بھی ہوتا تھا۔ اس لئے یہ ایک مشکل پیشہ ہوتا تھا۔
غوطہ لگا کرسمندر کی تہ میں ناک بند کرنے کے لئے ’’نوز کلپس‘‘ نہ ہونے کے باوجود سیپیوں کے بستر تک پہنچنا کٹھن کام تھا جو صرف طاقتور اور انتہائی ماہرغوطہ خور ہی کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تاجر اپنے قیمتی پتھر ہمسایہ ممالک میں فروخت نہیں کرتے تھے۔ ان کی مارکیٹس مشرق میں ہندوستان جیسے ممالک تھے۔
وہ دور دراز کے سفر سے نہ صرف بھاری بھرکم منافع لاتے تھے بلکہ مشرقی تہذیب کے اثرات بھی اپنے ساتھ لاتے تھے۔ یہ حقیقت ان کے گھروں کی تعمیر سے عیاں ہوتی تھی۔
اس طرز تعمیر کے اثرات آج الرفاعی ہاؤس اور نجدی مسجد میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کے ملبوسات جن پر ریشمی دھاگوں سے کڑھائی کی جاتی تھی ، ان میں استعمال ہونے والی اشیا میں بھی مشرقی تہذیب کے آثار نمایاں ہیں۔