سوشل میڈیا پر منگل کو ریاض کے اوپر دھویں کی فوٹیج شیئر کر کے چہ مگوئیاں ہوتی رہیں جبکہ کئی شہریوں نے بتایا کہ کیسے ان کے گھر کی گھڑکیاں کم از کم ایک دھماکے سے ہل کر رہ گئیں۔
رات تک یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 76 لاکھ 80 ہزار آبادی پر مشتمل شہر پر حملے کے حوالے سے کوئی بڑھک نہیں لگائی۔
حوثی ملیشیا کی خاموشی کی بھی وجہ تھی کیونکہ اس نے سنیچر کے ناکام حملے میں بھی ملوث ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 19 جنوری کو حوثیوں کو ’غیرملکی دہشت گرد گروہ‘ قرار دیے جانے کے بعد یہ پہلے اہم حملے ہیں جن میں کسی بڑے سعودی شہر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ اقدام ایران اور اس کی پراکسیوں کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ مہم میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایک آخری کارروائی تھی۔
حوثیوں کا واضح طور پر نام لیے بغیر بائیڈن انتطامیہ نے سنیچر کے واقعے کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں شہریوں کا نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ ’ایسے حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور ان سے امن اور استحکام کو فروغ دینے کی تمام کوششیں کمزور ہوتی ہیں۔‘
بہت سارے سیاسی مبصرین کے نزدیک حوثیوں کی نئی حکمت عملی غیر دانشمندانہ ہے۔ پابندیوں سے دوچار، سیاسی تنہائی کی شکار اور واشنگٹن سے رعایتیں لینے کے لیے بے چین حوثی ملیشیا ایک طرف اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ریاض پر حملے کر رہی ہے اور دوسری طرف ان میں ملوث ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتی۔
سیاسی تجزیہ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے سکالر ہمدان السحری نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ردعمل کا حساب لگانے اور اس بات جائزہ لینے کے بعد کہ ذمہ داری قبول کرنا اتنا فائدہ مند نہیں ہو گا، خاص کر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ’دہشت گرد‘ ڈیکلیئر کیے جانے کے بعد، حوثیوں نے سنیچر کو ہوئے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کی کوشش کی۔‘
ہمدان السحری نے مزید کہا کہ ’جو بھی ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ حوثی جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے، وہ ہی ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں اور بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ نئی امریکی انتطامیہ کی نظر میں اپنا مثبت تاثر رکھنے کے لیے مملکت پر حملوں سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق حوثیوں کے پاس شہریوں کو نشانہ بنانے کی بڑھکوں اور معقول تردید کے درمیان جھولتی ایک حکمت عملی ہے۔
دوسرے الفاظ میں وہ کسی بھی وقت پہ وہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو ان کے مقاصد کو فائدہ پہنچائے اور ان کے ایرانی سرپرستوں کے مطابق ہوں۔
واضح طور پر سعودی عرب کے دارالحکومت کو نشانہ بنانے والے یہ بے شرمانہ حملے عام کارروائی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی ٹیم کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایران کے ایک بڑے تزویراتی فیصلے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ مئی 2018 میں اوباما دور میں ایران کے ساتھ ہوئے نیوکلیئر معاہدے سے الگ ہو گئی تھی اور اس نے تہران پر دوبارہ سے پابندیاں عائد کر دی تھی۔ یہ حکمت عملی ایران کے یمن، عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں اثر و رسوخ کے خلاف مرتب کی گئی تھی۔
اس پس منظر میں تہران کے واشنگٹن کے علاقائی اتحادیوں اور شراکت داروں پر بڑے حملے، صدر بائیڈن کے عزم کو آزمانے یاں خوش قسمتی سے مزاکرات کے آغاز کی کوشش ہو سکتی ہے۔