کیا منگل کو ریاض کی بلندیوں پر دیکھے جانے والے میزائل کا کوئی ہدف نہیں تھا یا یہ بائیڈن انتطامیہ کو خبردار کرنے کے لیے ایک کارروائی تھی؟
عرب نیوز کے مطابق یہ وہ سوال ہے جو ’جارحانہ فضائی ہدف‘ کے حملے کے تین دن بعد دفاعی تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصرین کے ذہنوں میں سب سے پہلے آیا۔
جسے ایک بیلسٹک میزائل سمجھا جا رہا ہے اسے سعودی دارالحکومت کی طرف بڑھتے ہوئے روک کر تباہ کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
حوثیوں کے میزائل حملے میں دو بچوں سمیت تین زخمیNode ID: 533351
-
حوثیوں کی دہشتگردی کی کارروائیاں ناکامNode ID: 534651
-
ریاض پر حوثیوں کا فضائی ہدف ناکام بنا دیا گیاNode ID: 534926
سوشل میڈیا پر منگل کو ریاض کے اوپر دھویں کی فوٹیج شیئر کر کے چہ مگوئیاں ہوتی رہیں جبکہ کئی شہریوں نے بتایا کہ کیسے ان کے گھر کی گھڑکیاں کم از کم ایک دھماکے سے ہل کر رہ گئیں۔
رات تک یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 76 لاکھ 80 ہزار آبادی پر مشتمل شہر پر حملے کے حوالے سے کوئی بڑھک نہیں لگائی۔
حوثی ملیشیا کی خاموشی کی بھی وجہ تھی کیونکہ اس نے سنیچر کے ناکام حملے میں بھی ملوث ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 19 جنوری کو حوثیوں کو ’غیرملکی دہشت گرد گروہ‘ قرار دیے جانے کے بعد یہ پہلے اہم حملے ہیں جن میں کسی بڑے سعودی شہر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ اقدام ایران اور اس کی پراکسیوں کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ مہم میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایک آخری کارروائی تھی۔
حوثیوں کا واضح طور پر نام لیے بغیر بائیڈن انتطامیہ نے سنیچر کے واقعے کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں شہریوں کا نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ ’ایسے حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور ان سے امن اور استحکام کو فروغ دینے کی تمام کوششیں کمزور ہوتی ہیں۔‘
بہت سارے سیاسی مبصرین کے نزدیک حوثیوں کی نئی حکمت عملی غیر دانشمندانہ ہے۔ پابندیوں سے دوچار، سیاسی تنہائی کی شکار اور واشنگٹن سے رعایتیں لینے کے لیے بے چین حوثی ملیشیا ایک طرف اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ریاض پر حملے کر رہی ہے اور دوسری طرف ان میں ملوث ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتی۔
سیاسی تجزیہ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے سکالر ہمدان السحری نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ردعمل کا حساب لگانے اور اس بات جائزہ لینے کے بعد کہ ذمہ داری قبول کرنا اتنا فائدہ مند نہیں ہو گا، خاص کر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ’دہشت گرد‘ ڈیکلیئر کیے جانے کے بعد، حوثیوں نے سنیچر کو ہوئے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کی کوشش کی۔‘
ہمدان السحری نے مزید کہا کہ ’جو بھی ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ حوثی جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے، وہ ہی ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں اور بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ نئی امریکی انتطامیہ کی نظر میں اپنا مثبت تاثر رکھنے کے لیے مملکت پر حملوں سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/January/42951/2021/4.jpg)