درخواست کے مطابق ’ابھی تک نیب نے ایک سال میں ایک بار بھی آصف علی زرداری کو نہیں بلایا، ہم بیان حلفی جمع کروا دیتے ہیں کہ جب نیب بلائے گا مکمل تعاون کیا جائے گا۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں ریفرنس دائر ہوچکا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ’ابھی یہ کیس انویسٹی گیشن کے مرحلے پر ہے، ابھی ریفرنس نہیں دائر کیا گیا۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’10 مئی اور 16 مئی 2019 کو آصف علی زرداری کو نوٹس بھیجے گئے لیکن ان کا جواب نہیں آیا۔‘
آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’اس وقت آصف علی زرداری زیر حراست تھے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں آصف زرداری پر پندرہ کروڑ کی مشکوک ٹرانزیکشنز کا الزام ہے۔‘
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’آصف علی زرداری شامل تفتیش ہونے کو تیار ہیں اس لیے ان کی طبی بنیادوں پر قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کی جائے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’سوال یہ بنتا ہے کہ پٹیشنر ضمانت کے بعد کہیں بیرون ملک تو روانہ نہیں ہو جائیں گے؟‘
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ’سابق صدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل ہے وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔‘
عدالت نے طبی بنیادوں پر آصف علی زرداری کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب کو سابق صدر کی گرفتاری سے روک دیا۔