خلیج عمان میں ہونے والے اس دھماکے کے باعث بحری جہاز کو مجبوراً قریبی بندرگاہ کی طرف جانا پڑا۔
میری ٹائم فرم دریاد گلوبل کے مطابق یہ متاثرہ جہاز ایم وی ہیلوس ہے، جبکہ ایک اور نجی سیکیورٹی اہلکار نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے پی کو اس جہاز کی شناخت کے بارے میں تصدیق کی۔
بحری جہاز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ میرین ٹریفک ڈاٹ کام کے ڈیٹا کے مطابق جہاز جمعے کے روز گرین ایج معیاری وقت کے مطابق صبح تقریباً چھ بجے بحیرہ عرب میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا جس کے فوراً بعد ہی وہ آبنائے ہرمز کی طرف واپس جانا شروع ہو گیا۔ یہ جہاز سعودی عرب میں شہر دمام سے سنگاپور جا رہا تھا۔
ریفینیٹو نامی ڈیٹا فرم کے اہلکار کیپٹن رانجتھ کے مطابق اسرائیلی بحری جہاز جمعرات کے روز خلیج فارس سے نکل چکا تھا اور سنگاپور کی جانب گامزن تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جمعے کے روز گرینچ کے معیاری وقت کے مطاق رات ڈھائی بجے یہ جہاز عمان کی مرکزی بندرگاہ کے مشرق میں کم از کم 9 گھنٹوں کے لیے رکا رہا جس کے بعد واپس دبئی کی طرف چلنا شروع ہو گیا۔ کیپٹن رانجتھ کے مطابق دبئی جانے کا ممکنہ مقصد جہاز کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگوانا اور مرمت کروانا ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق بحری جہاز اسرائیل کے دارالحکومت تیل ابیب میں واقع ’رے شپنگ‘ نامی کمپنی کا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے حکام نے اے پی نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ دھماکے کی تفصیلات فی الحال واضح نہیں، تاہم دھماکے کے باعث جہاز میں سوراخ ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق جہاز میں سوراخ ہونے کی وجہ واضح نہیں ہے۔
دریاد گلوبل میری ٹائم فرم کا بھی کہنا ہے کہ دھماکے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی تاہم فرم کے مطابق ایرانی فوج کی سرگرمیاں دھماکے کی ممکنہ وجہ ہو سکتی ہیں۔
امریکی میری ٹائم انتظامیہ نے بھی دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام کمرشل جہازوں کو خلیج عمان سے گزرتے ہوئے احتیاط برتنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
یہ دھماکہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب ایران 2015 کے جوہری معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ایران معاشی پابندیوں میں نرمی کے لیے صدر جو بائیڈن پر مسلسل دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔