Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حوثی ’یمن جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عزم‘ کا ساتھ دیں: امریکہ

اقوام متحدہ کے مطابق یمن کے لیے تین ارب 85 کروڑ ڈالر کی فوری ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب اس عزم پر قائم ہے کہ یمن  میں جنگ کے خاتمے کا راستہ نکالا جائے اور ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘
عرب نیوز کے مطابق پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی بنیادوں پر امداد کی ایک کانفرنس سے خطاب میں امریکی سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پہلا اور ضروری قدم ان کا معارب شہر پر حملوں کو روکنا ہے جہاں جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ مقیم ہیں۔ سعودی اور یمن کی حکومت کی امن کے لیے اقدامات میں ان (حوثیوں) کو شامل ہونا چاہیے۔‘
انتونی بلنکن نے یہ خطاب امریکہ کے یمن کے لیے مندوب ٹم لنڈرکنگ کے علاقے کے دورے سے واپس آنے کے بعد کیا۔

 

امریکی وزیر خارجہ نے ٹم لنڈرکنگ کے دورے کے حوالے سے بتایا کہ ’انہوں نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی اور یمن کی حکومت  تنازعے کے حل کے لیے پرعزم اور کوشاں ہیں۔ ہم حوثیوں سے کہتے ہیں کہ وہ بھی اس عزم کا اظہار کریں۔‘
پیر کو منعقدہ اس کانفرنس میں ڈونرز کی جانب سے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر دینے کے اعلانات کیے گئے جو اقوام متحدہ کی جانب سے سنہ 2021 میں بڑے پیمانے پر قحط سے بچنے کے لیے مانگی گئی رقم کے آدھے سے بھی کم ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ’یمن کے لیے تین ارب 85 کروڑ ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔‘
ڈونر کانفرنس میں سعودی عرب نے 430 ملین ڈالر، امریکہ نے 191 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 230 ملین ڈالر اور جرمنی نے 240 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس موقع پر کہا کہ ’یمن میں لاکھوں بچے، مرد اور عورتیں زندہ رہنے کے لیے امداد کی منتظر ہیں۔ امداد کو کم کرنا ان کو سزائے موت دینے کے مترادف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی کانفرنس میں جو اعلانات کیے گئے ان کو میں ڈاؤن پیمنٹ کہوں گا جنہوں نے امداد دینے کے اعلانات کیے ان کا شکریہ ادا کروں گا اور دوسروں سے کہوں گا کہ وہ ایک بار پھر غور کریں کہ وہ دنیا کو دہائیوں بعد بدترین قحط کی صورت حال سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر پروگرام کے سربراہ مارک لوکوک نے کہا کہ جتنی امدادی رقم اکھٹی ہوئی ہے یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ ’محدود وسائل کے ساتھ بڑے پیمانے پر قحط کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس وقت یمن کے حوالے سے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہم یمن کو امن کے راستے پر ڈالنے کا انتخاب کر سکتے ہیں یا پھر یمن کے لوگوں کو دنیا کے بدترین قحط کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ سکتے ہیں۔‘
مارک لوکوک نے کہا کہ ’اگر آپ لوگوں کو غذا خوراک فراہم نہیں کرتے تو پھر آپ جنگ کو ایندھن دیتے ہیں۔‘

شیئر: