ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو نفرت بھڑکانے، تشدد اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے بدنام ہیں۔ ان کے کئی زبانوں میں اکاؤنٹس ابھی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔
فارسی، انگریزی اور ہسپانوی زبانوں میں ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹس مسلسل ایسا مواد پوسٹ کرتے ہیں جو ٹوئٹر کی پالیسیوں کی خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جنوری میں خامنہ ای کے ذاتی دفتر سے منسلک ایک اکاؤنٹ میں ایک گرافک شائع کیا گیا تھا جس میں ’انتقام‘ کی دھمکی دی جارہی تھی اور اس دوران وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ہونے والے فضائی حملے کے سائے میں دکھایا گیا تھا، جسے خامنہ ای کے ذاتی اکاؤنٹ میں سے ایک نے ٹویٹ کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
’ایران سعودی عرب پر حوثی حملوں کی حمایت کرتا ہے‘Node ID: 548721
-
’سخت گیر رہنما پابندیوں کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں‘Node ID: 549771
عوامی ردِعمل سامنے آنے کے بعد پوسٹ ٹویٹ کرنے والی ٹوئٹر اکاؤنٹ کو معطل کردیا گیا لیکن ذاتی اکاؤنٹ کو معطل نہیں کیا گیا۔
ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ ’اس نے جعلی اکاؤنٹس کے خلاف اپنی پالیسی کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ اکاؤنٹ معطل کیا ہے۔‘
امریکہ میں موجود تنظیم اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) کے واشنگٹن ڈائریکٹر ڈیوڈ وائن برگ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ٹوئٹر کی جانب سے یہ وضاحت کہ اس نے صرف وہ ہی مخصوص اکاؤنٹ کیوں معطل کیا ہے باقی کیوں نہیں موثر دلیل نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک بات یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ کو خامنہ ای کے دیگر مرکزی اکاؤنٹس (جنہیں معطل نہیں کیا گیا) کی جانب سے فالو کیا گیا اور اس کی ٹویٹس کو مسلسل ری ٹویٹ کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس اکاؤنٹ کو 6 ماہ سے ہر قسم کا نقصان دہ مواد شیئر کرنے کی اجازت تھی، لہٰذا اسے تشدد پر اُکسانے والا مواد شائع کرنے کے صرف ایک دو دن کے بعد اچانک کیوں ہٹا دیا گیا؟
ان کے مطابق ’اس قسم کے کئی اکاؤنٹس مختلف زبانوں میں اب بھی اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہیں؟‘
اس واقعے کے بعد اے ڈی ایل نے ٹوئٹر کے چیف آپریٹنگ آفیسر کو کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا کہ ’خامنہ سے منسلک تمام اکاؤنٹس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نفرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے پر بغیر کسی تاخیر کے بلاک کر دیا جائے۔‘

ٹوئٹر نے گذشتہ برس تشدد پر اکسانے کے الزام میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پہلے ان کے ٹویٹس پر حقائق کی جانچ اور تشدد کے لیبل شامل کرکے بالآخر رواں سال 8 جنوری کو ان کا اکاؤنٹ ریئل ڈونلڈ ٹرمپ کو مستقل طور پر معطل کر دیا تھا۔
تاہم جب امریکی سینیٹ کامرس چیئر راجر وِکر نے گذشتہ برس خامنہ ای کی ٹویٹس کے بارے میں ایک سماعت میں جیک ڈورسی سے خامنہ کی ’تشدد کی ستائش‘ کے حوالے سے ٹویٹس کے بارے میں پوچھا تو ڈورسی نے پلیٹ فارم پر ان کا بغیر لیبل کے رکھنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ان اکاؤنٹس کو ٹوئٹر کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں پایا کیونکہ ہم سجھتے ہیں کہ یہ ایک طرح کی اس فوجی قوت کا اظہار ہے جو دیگر ممالک کے عالمی رہنما کی تقاریر کا بھی حصہ ہوتا ہے۔‘
سینیٹر کو ٹرمپ کی ٹویٹس پر لیبل لگانے لیکن دوسرے عالمی رہنماؤں کی ٹویٹس پر لیبل نہ لگانے کے حوالے سے دوہرے معیارات کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈورسی نے کہا کہ ’ہم نے اس کنفیوژن کا جائزہ لیا ہے جس سے تشدد کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے اور ہم نے اس کے مطابق اس پر لیبل لگا دیا۔
