مشرق کے سادہ ’قہوہ‘ کو مغرب نے ’کافی‘ میں بدل دیا۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)
یادوں سے لے رہا ہوں حنائی مہک کا لطف
ٹیبل پہ رکھ کے لونگ کا قہوہ بنا ہوا
راشد امین کے اس شعر میں رچا رومان پرور احساس اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے میں شعر کی شرح سے صرف نظر کرتے اور اس میں در آئے لفظ 'قہوہ' سے بحث کرتے ہیں۔
’قَہْوَہ‘ عربی لفظ ہے جو ابتدا میں مجازاً اُس گرم و تلخ مشروب کو کہتے تھے جو مخصوص بیجوں کو بھون اور کاڑ کر بنایا جاتا تھا، یہ کبھی صوفیوں کا مرغوب مشروب تھا۔
عربی میں ’قہوہ‘ کا تلفظ ’ق‘ کو گاڑھا کرنے کے نتیجے میں ’گہوہ‘ کیا جاتا ہے جب کہ یہی قہوہ اردو کے عوامی لہجے میں’کاوا‘ کہلاتا ہے۔
بعد میں ’قہوہ‘ کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور حسب ضرورت لونگ، الائچی، ادرک اور اس قبیل کے دوسرے مسالوں کو جوش دے کر بنایا جانا والا مشروب بھی اس کی تعریف میں داخل ہوگیا جو بہرحال ’جوشاندہ‘ سے الگ شناخت رکھتا ہے۔
قہوہ کے عمومی استعمال کے نتیجے میں ترکی و فارسی کی رعایت سے اردو میں کئی تراکیب راہ پا گئی ہیں۔ یوں قہوہ فروش ’قہوہ چی‘ کہلایا، جہاں فروخت ہوا اسے ’قہوہ خانہ‘ پکارا گیا اور جس ظرف میں قہوہ سمایا وہ ’قہوہ دان‘ کی صورت میں نظر آیا۔
ایسی جگہ جہاں کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزیں (ریفریشمنٹس) دستیاب ہوں اسے فارسی میں ’قہوہ سرا‘ کہتے ہیں۔ اگرآپ چائے خانے میں چائے کے علاوہ سموسوں اور پکوڑوں وغیرہ کی دستیابی کو ذہن میں رکھیں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔
’قہوہ سرا‘ کے معنی میں ’کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزوں کی جگہ‘ کا تصور کیونکر پیدا ہوا اور کیسے ’قہوہ سرا‘ کا لفظ انگریزی کیفے (Cafe) اور ہسپانوی کے کیفے ٹیریا (cafeteria) کا ہم معنی ہوگیا۔
یہاں ایک اور دلچسپ بات ملاحظہ کریں اور وہ یہ کہ انگریزی Cafe اور ہسپانوی cafeteria اصل عربی کا ’قہوہ‘ ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کیسے؟
عرض ہے کہ لفظ ’قہوہ‘ ترکی زبان میں پہنچا تو کاہوے (Kahve) ہوا اور جب ترکی کی راہ سے یورپ میں داخل ہوا تو فرانسیسی میں کیفی (café) اور جرمن میں کافی (Kaffee) پکارا گیا جب کہ انگریزی میں کچھ فرق کے ساتھ کافی (Coffee) ہو گیا اور جہاں یہ Coffee فروخت ہوئی اسے Cafe کہا گیا۔
یہی کچھ لفظ کیفے ٹیریا (cafeteria) کا معاملہ ہے جو میکسیکن ہسپانوی سے متعلق ہے، جس میں قہوہ فروش Cafetero اور قہوہ خانہ cafeteria ہے۔ اب ’کیفے‘ کی رعایت سے ابن انشا کا شعر ملاحظہ کریں:
دفتر سے اٹھے، کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشا جی، یوں اپنا گزارا ہوتا ہے
مشرق کے سادہ ’قہوہ‘ کو مغرب نے ’کافی‘ میں بدل کر اتنی متنوع صورتیں بخش دیں کہ ایک سادہ لوح کے لیے ان ناموں کو یاد رکھنا بھی محال ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کافی کی یہ رنگا رنگ اقسام چند بنیادی اجزا میں معمولی معمولی تغیر اور تبدیلی کی نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔
مثلاً سیاہ کافی اسپریسو espressoکہلاتی ہے، جو کپ میں دو تہائی ہو تو ڈوپیو (doppio) بن جاتی ہے، پھر ایک تہائی ایسپرسو والا کپ گرم پانی سے بھردیں یہ امریکانو (americano) ہو جاتی ہے۔
اسی طرح مِلک فوم، اسٹیم مِلک اور ایسپریسو کی مقدار برابر ہو تو کیپوچینو (cappuccino)،اسی تناسب میں مِلک فوم کم اور اسٹیم مِلک بڑھا دیں تو لاٹے (latte)، ایسپریسو اور اسٹیم مِلک ایک ایک تہائی ہو تو کورٹاڈو (cortado) اور اگر اسی تناسب میں اسٹیم ملک بڑھ جائے تو یہ فلیٹ وائٹ (flat white) ہے۔ اسی طرح کپ میں مِلک فوم کے مقابلے میں دُگنی ایسپریسو ہو تو اسے میکیاتو (macchiato) کہتے ہیں۔
استاد نے ’کافی کہانی‘ سنی تو بولے قدیم عرب دودھ اور آٹے کے مختلف تناسب سے مختلف کھانے بناتے اور ہر ایک کو جدا نام سے پکارتے تھے۔ پھر بات کھانے پینے تک محددو نہیں، زبان و بیان بھی اسی فارمولے پر پروان چڑھے ہیں۔
اس باب میں عربی لفظ ’مس، مسح و لمس، حارث و حارس، قتل و قطل اور جبر و جبل‘ کے حوالے سے پہلے بھی بات ہوچکی ہے۔ سردست اردو زبان کے لفظ ’کُھلنا‘ کی کرشمہ سازی دیکھیں۔
’کھولنا‘ سے لفظ ’کُھلنا‘ ہے جس کے معنی کسی بند یا بندھی ہوئی چیز کا وا ہونا ہے۔ اسی لفظ کو ’کاف‘ کے زیر کے ساتھ ادا کریں تو ’کِھلنا‘ بن جاتا ہے، جس کے معنی ہنسنے، نکھرنے اور سنورنے کے ہیں۔ اب یہی لفظ ’کاف‘ کے زبر سے ادا کریں تو یہ ’کَھلنا‘ بن جاتا ہے اور اس کے معنی ناگوار ہونا اور بُرا لگنا بن جاتے ہیں۔
پھر اس لفظ ہی کی ایک صورت ’گُھلنا‘ ہے جس کے معنی حل ہوجانا اور نرم پڑجانا ہیں۔ آگے بڑھیں تو ’گھلنا‘ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ ’گلنا‘ بن جاتا ہے اور اس کے معنی سڑنا، پگھلنا اور ملائم ہوجانا ہیں، ساتھ ہی لفظ ’کُھرنا‘ کو دیکھیں اس کے معنی میں بکھرنا، مٹی کا بتدریج جھڑنا اور آہستہ آہستہ طاقت زائل ہوجانا شامل ہیں۔'
اب اسی سلسلے کے لفظ ’کَھولنا‘ یعنی اُبلنا اور جوش مارنا، پر غور کریں تو یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی کہ لفظ ’کُھلنا، کِھلنا، کَھلنا، گُھلنا، گلنا، کھرنا اور کھولنا‘ اصلاً ایک ہی لفظ کی مختلف صورتیں ہیں جن کا اطلاق اعراب اور الفاظ کی جزی تبدیلی کے ساتھ مختلف صورتوں پر کیا جاتا ہے، تاہم ان کا مشترکہ مفہوم یعنی ’تنگی سے کشادگی‘ اپنے مثبت یا منفی معنی کے ساتھ ہر جگہ مشترک ہے۔
اب زیر بحث گفتگو کی رعایت مدراس (انڈیا) کے اصغر ویلوری کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: