Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینی سکینڈل: کیا ایف آئی اے اور جہانگیر ترین کی صلح ہو گئی؟

پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے اہم رہنما اور ماضی میں وزیراعظم عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے والے جہانگیر خان ترین کے خلاف چینی سکینڈل اور بینکنگ فراڈ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
جمعے کو جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی ترین کی عبوری ضمانت کے کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا ہے کہ ’ہمیں جہانگیر ترین سے مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انہیں گرفتار کرنے کا ارادہ ہے۔‘
لاہور کی سیشن عدالت میں عبوری ضمانت کیس کی سماعت دو مختلف عدالتوں میں ہوئی۔ ایک عدالت نے منی لانڈرنگ اور دوسری عدالت نے بینکنگ فراڈ کیس میں جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے کی ضمانت منظور کی۔

 

عدالت میں سماعت کے دوران ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم نے بتایا کہ ’اب ہمیں جہانگیر ترین کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے موجود مواد مقدمے کی مزید چھان بین کے لیے کافی ہے۔‘
اسی دوران جہانگیر ترین کے وکلا نے بھی عدالت کو بتایا کہ ’ہمارا پہلے دن سے یہی موقف ہے کہ ہم تفتیش میں تعاون کر رہے ہیں اور جو ریکارڈ بھی مانگا گیا وہ مہیا کیا گیا ہے۔ آج ایف آئی اے نے ہمارے موقف کی تائید کر دی ہے۔‘ 
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے خلاف چینی بحران میں منافع کمانے کے الزامات کی تحقیقات جاری تھیں کہ اسی دوران ان کے خلاف ایف آئی اے نے دو نئے مقدمات درج کرلیے جن میں ان کے صاحبزادے اور خاندان کے دیگر افراد پر بھی سنگین الزامات عائد کیے گئے۔
اسی دوران تحریک انصاف کے 30 سے زائد اراکین اسمبلی اور دو صوبائی وزرا نے جہانگیر ترین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور پارٹی کے اندر نیا گروپ بنا لیا۔  
اس گروپ کا پہلے دن سے مطالبہ تھا کہ جہانگیر ترین کو پارٹی کے اندر سے ہی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ایک ایم پی اے نذیر چوہان نے اس انتقام کی وجہ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو قرار دیا تھا۔ اس نئے دھڑے کے بننے کے بعد وزیراعظم نے ان سے ملاقات بھی کی اور ان کا موقف سنا۔
بعد ازاں وزیر اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار سے بھی اس گروپ نے ملاقات کی جس کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعے بتایا گیا کہ ’گلے شکوے دور ہو گئے ہیں اور اب کوئی دھڑے بندی نہیں۔‘

عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد ضمانت کی درخواست نمٹا دی (فوٹو اے ایف پی)

گروپ بننے کے بعد ہر پیشی پر گروپ کے تمام اراکین جہانگیر ترین کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے رہے۔
جمعے کی پیشی میں بھی تمام اراکین جہانگیر ترین کے ساتھ تھے۔ جہانگیر ترین کے وکلا نے ایف آئی اے کی جانب سے انہیں گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق ’ضمانت کی درخواست اس وقت ہی واپس لی جاتی ہے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے عدالت کو یہ بتا دیں کہ تفتیش میں آپ بے قصور پائے گئے ہیں یا پھر آپ کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ 
عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد ضمانت کی درخواست نمٹا دی اور ایف آئی اے کو پابند کیا کہ مستقبل میں وہ جہانگیر ترین کے خلاف کسی بھی تادیبی کارروائی سے ایک ہفتہ پہلے انہیں بتائیں گے۔  
سیاسی مبصرین پاکستان کے سالانہ بجٹ کے روز جہانگیر ترین اور ایف آئی اے کے درمیان سیز فائر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ بجٹ کی منظوری بہرحال ترین گروپ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
جہانگیر ترین نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عدالت میں ہونے والی پیش رفت کو بجٹ سے نہ جوڑا جائے۔ ہمارا پہلے دن سے جو موقف تھا اسے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ‘

جہانگیر ترین کو انصاف مل گیا، وزیراعظم کے شکرگزار ہیں: راجہ ریاض

پی ٹی آئی جہانگیر ترین گروپ کے رہنما رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے کہا ہے کہ وہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ بجٹ پاس کرائیں گے۔
جمعے کو وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے چند لمحے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ ریاض کا مزید کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، اسی میں رہیں گے لیکن ہم نے جہانگیر ترین کے لیے انصاف مانگا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وزیر اعظم کو مل کر بھی صرف اتنا کہا تھا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔‘ انہوں نے کہا کہ آج جہانگیر ترین کو انصاف مل گیا ہے جس پر وہ وزیر اعظم کے شکرگزار ہیں۔

راجہ ریاض کا کہنا تھا ’ہم پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، اسی میں رہیں گے اور بجٹ پاس کرائیں گے۔‘ (فوٹو: اے پی پی) 

ساتھ ہی انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ انہیں انصاف عدالتوں سے ملا اور ان کو کوئی رعایت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر کو جس بھی عدالت میں یا فورم پر بلایا گیا ہے وہ پیش ہوئے ہیں، اور جو بھی دستاویز مانگی گئیں وہ پیش کی گئیں۔
صحافی کی جانب سے اسے این آر او قرار دیے جانے کے تاثر کے حوالے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا
’آپ بے شک اسے این آر او سمجھتے رہیں، ہم اس کو انصاف کہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’پہلے روز سے ہمارا جو مطالبہ تھا وہ جائز مطالبہ تھا اور آج مطالبے کو عدالتوں نے تسلیم کیا ہے۔‘
ڈی جی ایف آئی اے کی تبدیلی کیا این آر او نہیں؟ اس سوال پر راجہ ریاض نے موقف اپنایا کہ اس کا این آر او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

 

شیئر: