’منوڑہ‘ کا ’لائٹ ہاؤس‘ انگریزوں نے تعمیر کروایا تھا۔ ( فوٹو: ٹوئٹر)
سید ضمیر جعفری کی شخصیت سپاہیانہ جبلت، صحافیانہ خصلت اور شاعرانہ طبیعت کا نقطہِ اتصال تھی۔ تاہم اس سب کے باوجود باوصف مزاح نگاری ان کی شخصیت کی غالب شناخت قرار پائی۔ بزرگی میں بھی ان کے چہرے پر معصومانہ مسکراہٹ اور طفلانہ شرارت سجی ہوتی۔ وہ اس بَھولپن سے کلام سناتے کہ سامعین لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
اردو نصاب کا حصہ بنے والی نظموں میں سید ضمیر جعفری کی ایک تاثراتی نظم ’کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے‘ بھی شامل ہے۔ عشروں قبل کہی گئی نظم کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت زار پر آج بھی صادق آتی ہے۔
اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کریں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں:
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کراچی کی تاریخ اور ترقی ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ سر دست ہم اس شہر کی وجہ تسمیہ پر بات کریں گے۔ عام خیال کے مطابق مچھیروں کی یہ چھوٹی سی بستی ’مائی کولاچی‘ کی نسبت سے ’کولاچی‘ کہلائی جسے گزرتے وقت نے ’کولاچی‘ سے ’کراچی‘ بنا دیا۔
یوں تو کراچی میں بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کا سہرا انگریزوں کے سر ہے مگر معروف محقق سید رضوان علی ندوی کا اس باب میں کچھ اور کہنا ہے۔ رضوان ندوی کے مطابق انگریزوں کی آمد سے بہت پہلے بھی یہاں بندرگاہ موجود تھی اور عرب جہاں راں اس بندرگاہ سے واقف تھے۔
اس حوالے سے رضوان ندوی ایک قدیم تذکرے کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں اس مقام کو ’کراتشی‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہےاور یہ بات معلوم و معروف ہے کہ آج بھی کراچی کو عربی میں ’کراتشی‘ ہی کہا جاتا ہے۔
جزیرہ نما منوڑہ اور اس سے متصل علاقوں میں بسنے والے مقامی افراد آج بھی حرف ’ر‘ کا تلفظ ’ڑ‘ کرتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
اس بیان کی روشنی میں مائی کولاچی کا قصہ، ’فسانہ‘ قرار پاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس شہر کو ’کراچی‘ پکارنے کے پیچھے کیا راز ہے؟
آگے بڑھنے سے قبل معروف صحافی فیض اللہ خان کی کتاب ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘ سے چند سطری اقتباس ملاحظہ کریں، عین ممکن ہے کہ زیر بحث سوال کا جواب مل جائے۔ فیض اللہ خان طورخم بارڈر کے احوال میں لکھتے ہیں:
’خواتین اور بڑی عمر کے افراد کے لیے یہاں پر ٹرالیاں چلتی ہیں، جسے کمسن لڑکے چلاتے ہیں، اور بڑی عمر کے افراد کو اس میں بٹھا کر بارڈر کے دونوں طرف لے کر جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹرالی کو ’کراچی‘ کہا جاتا ہے، یعنی آپ ’کراچی‘ میں بیٹھ کر باآسانی بارڈر عبور کر سکتے ہیں۔‘
اس ’کراچی‘ کی دوسری صورت ’کرانچی‘ ہے، بھلے وقتوں میں یہ لکڑی سے بنی گاڑی یا چھکڑا سامان ڈھونے کے کام آتا تھا جب کہ دہلی میں کوڑا کرکٹ اٹھانے والی گاڑی کو بھی ’کرانچی‘ کہتے تھے۔ یہ چاروں طرف سے بند اور اوپر سے کُھلی ہوتی تھی۔ بعد میں اس لفظ میں وسعت پیدا ہوئی اور مال گاڑی کا کُھلا ڈبہ بھی ’کرانچی‘ کی تعریف میں داخل ہوگیا کہ یہ بھی مال و اسباب ڈھونے کے کام آتا ہے۔
قیاس کہتا ہے کہ کراچی کی جدید بندرگاہ سے صدیوں پہلے اس مقام پر مال واسباب کو کشتیوں یا جہازوں سے بازار تک پہنچانے کے لیے جو ذریعہ استعمال ہوتا تھا وہ یہی ’کراچی/کرانچی‘ تھا۔ ظاہر ہے کہ سامان ڈھونے والی یہ ’کراچی/کرانچی‘ ایک دو نہیں بلکہ بہت سی ہوتی ہوں گی، یوں بندرگاہ پر ان کی بہتات کی رعایت سے اس جگہ کا نام ہی ’کراچی‘ پڑ گیا۔
ممکن ہے آپ کو کراچی کی بندرگاہ کا قدیم تر ہونا اچنبھا معلوم ہو۔ اگر ایسا ہے تو ذرا دیر کے لیے کراچی کی بندرگاہ سے متصل جزیرہ نما ’منوڑہ‘ کے نام پر غور کریں۔ ’منوڑہ‘ لفظ ’منورہ‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے، اور منورہ کے معنی ’روشن‘ ہیں۔ جب رات کو اس مقام پر سمندری جہازوں کی رہنمائی کے لیے آگ دھکائی جاتی ہوگی تو مخصوص علاقہ اس آگ کی وجہ سے ’منور‘ ہو جاتا ہوگا، اور اسی ’منور‘ کی نسبت سے یہ علاقہ ’منورہ‘ کہلایا ہوگا۔
اردو نصاب کا حصہ بنے والی نظموں میں سید ضمیر جعفری کی ایک تاثراتی نظم ’کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے‘ بھی شامل ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
واقعہ یہ ہے کہ جزیرہ نما منوڑہ اور اس سے متصل علاقوں میں بسنے والے مقامی افراد آج بھی حرف ’ر‘ کا تلفظ ’ڑ‘ کرتے ہیں، وہ ’ارے‘ کو ’اڑے‘ اور ’جاؤ رے‘ کو ’جاؤ ڑے‘ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’منورہ‘ بدل کر 'منوڑہ' ہوگیا ہے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ ’منوڑہ‘ لفظ ’منارہ‘ کی تبدیلی شدہ شکل ہے، عربی میں ’منار‘ روشنی کی جگہ کو اور ’منارہ‘ مخروط صورت اُس بلند مقام کو کہتے ہیں جس پر آگ روشن کی جاتی ہے۔ یہی روشن منارہ انگریزی میں ’لائٹ ہاؤس‘ کہلاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ لائٹ ہاؤس سمندری جہازوں کی رہنمائی کا کام دیتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’منوڑہ‘ کا ’لائٹ ہاؤس‘ تو انگریزوں نے تعمیر کروایا تھا جب کہ ’منوڑہ‘ کا ذکر تو اس کی تعمیر سے بہت پہلے بنائے جانے والوں نقشوں میں بھی موجود ہے۔
عرض ہے کہ ہزاروں سال قبل بھی بحر و بر میں سفر کرنے والوں کی رہنمائی کے لیے رات کے وقت کسی بلند مقام پر آگ روشن کردی جاتی تھی۔ اس آگ کی بدولت ہی مسافروں اور بحری جہازوں کو اپنی منزل کا تعین کرنے میں مدد ملتی تھی۔ چنانچہ کراچی کی بندرگاہ کے اس مقام پر بھی کسی بلند جگہ یا بصورت منارہ آگ روشن کی جاتی ہوگی اور اس روشن منارہ کی رعایت سے اس جگہ کا نام ہی ’منارہ‘ پڑ گیا، جو بعد ازاں منوڑہ میں ڈھل گیا۔
کراچی کی بندرگاہ اور اس سے متصل قدیم علاقوں ماڑی پور اور لیاری کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں افریقی النسل قوم آباد ہے۔ گہری رنگت اور گھنگھریلے بالوں والے ان باشندوں کو ’مکرانی‘ اور ’شِیدی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
چونکہ ان کی ایک بڑی تعداد ’مکران‘ میں آباد ہے یوں اس نسبت سے انہیں ’مکرانی‘ کہاجاتا ہے، جب کہ ’شیدی‘ اصلاً میں لفظ ’سیدی‘ کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ ایک رائے کے مطابق انہیں حضرت بلال کا ہم نسل ہونے کی وجہ سے ’سیدی‘ کہا گیا۔
دوسرے نقطۂ نظر کی بنیاد اس عام سماجی روایت پر ہے جس کے مطابق چھوٹے موٹے کام کرنے والوں کو خوش کُن ناموں سے مخاطب کیا جاتا تھا، مثلاً پنہار یا سقّہ کو ’بہشتی‘ یعنی جنتی کہتے یا جیسے کہتر (خاکروب/ ادنیٰ) کو مہتر یعنی آقا و سردار پکارتے ہیں، ایسے ان افریقی غلاموں کو ’سیدی‘ یعنی ’میرے سردار‘ کہا گیا، جو بدل کر ’شیدی‘ ہوگیا۔