بلوچستان میں اہم سیاسی رہنماؤں کی پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کو فائدہ کیا؟
بلوچستان میں اہم سیاسی رہنماؤں کی پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کو فائدہ کیا؟
پیر 9 اگست 2021 10:56
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان میں ایک سابق گورنر، ایک سابق وزیراعلیٰ، پانچ سابق صوبائی وزرا و ارکان اسمبلی سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات کی شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں سیاسی و انتخابی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی آئندہ صوبے میں حکومت بنانے کی توقعات بنالی ہیں۔ اتوار کو کوئٹہ میں شمولیتی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں جیالا وزیراعلیٰ ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ الیکٹ ایبلز کی شمولیت سے پیپلز پارٹی بلوچستان میں مضبوط تو ہوگی مگر آئندہ صوبے میں حکومت کس کی بنے گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مرکز میں کون سی جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے۔
کون کون سی شخصیات پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں؟
کوئٹہ کے علاقے سریاب کسٹم میں پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر علی مدد جتک کی رہائش گاہ پر منعقدہ تقریب میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری، سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی، سابق رکن بلوچستان اسمبلی کرنل ریٹائرڈ یونس چنگیزی، سابق رکن بلوچستان اسمبلی کشور احمد جتک، سابق صوبائی وزیر آغا عرفان کریم احمد زئی، سابق ضلعی ناظم نصیرآباد سردار چنگیز ساسولی، سابق چیئرمین خضدار میر عبدالرحمان زہری اور کئی دیگر سیاسی شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
نواب ثنا اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ نے گذشتہ سال نومبر میں ن لیگ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ ثنا اللہ زہری 2018 میں اپنے آبائی ضلع خضدار سے ساتویں بار بلوچستان اسمبلی کے رکن اسمبلی بنے۔
وہ دسمبر 2015 سے جنوری 2018 تک بلوچستان میں ن لیگ کی مخلوط حکومت کے وزیراعلیٰ رہے۔ عبدالقادر بلوچ بلوچستان کے سابق گورنر، سابق کور کمانڈر کوئٹہ اور 2013 سے 2018 تک ن لیگ کی حکومت میں وفاقی وزیر سرحدی امور رہے۔
نواب محمد خان شاہوانی کوئٹہ اور مستونگ سمیت صوبے میں آباد بلوچوں کے شاہوانی قبیلے کے سربراہ ہیں۔ وہ 2013 سے 2018 تک نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی اور عبدالمالک بلوچ اور ثناء اللہ زہری کی حکومت میں صوبائی وزیر رہے۔ یونس چنگیزی کا تعلق کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبیلے سے ہے۔
وہ 25 سالہ سروس کے بعد پاک فوج سے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ 2002 میں آزاد حیثیت سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر ق لیگ میں شمولیت اختیار کرکے صوبائی وزیر کھیل بنے۔
آغا عرفان کریم کا تعلق ریاست قلات کے سابق حکمران احمد زئی کے خاندان سے ہے۔ وہ 2008 میں رکن صوبائی اسمبلی اور نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں صوبائی وزیر رہے۔
کشور احمد جتک 2013 سے 2018 تک خواتین کی مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں۔
اس صورتحال کے حوالے سے بلوچستان کے سینیئر تجزیہ کار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے یہ تمام افراد سیاست کے میدان میں نئے نہیں بلکہ تجربہ کار اور الیکٹ ایبلز سیاستدان ہیں۔ الیکٹ ایبلز کا اپنا ووٹ بینک اور حلقہ اثر ہوتا ہے وہ مختلف حالات و واقعات کو دیکھ کر ہی کوئی سیاسی رُخ اختیار کرتے ہیں۔‘
ان کے بقول پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں میں نواب ثنا اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ سمیت کئی لوگ پہلے ن لیگ میں تھے جب وہ اقتدار میں تھی اور پھر ان سے راہیں جدا کر لیں۔ ان شخصیات کی پیپلز پارٹی سے کوئی نظریاتی قربت نہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ آئندہ دور پیپلز پارٹی کا ہو سکتا ہے اس لیے جیالے بن گئے ہیں۔
تاہم کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں اہم سیاسی شخصیات کی شمولیت سے پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں حیثیت پہلے سے بہتر ہوگی۔
ان کے بقول ثنا اللہ زہری کے پاس پیپلز پارٹی میں جانے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ وہ ن لیگ چھوڑ چکے، ماضی میں وہ قوم پرست نیشنل پارٹی کا حصہ رہے اور بی این پی میں سردار اختر مینگل سے تنازع کی وجہ سے نہیں جاسکتے۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’سیاسی حلقوں میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا سورج غروب ہورہا ہے اور پیپلز پارٹی کے لیے 2023 کے انتخابات سے قبل حالات سازگار ہو رہے ہیں۔‘
’اس لیے ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ کو دیکھ کر شاید مزید لوگ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ اس وقت وہ تاڑ میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہیں کہ مرکز میں پیپلز پارٹی کو مقتدر حلقوں کی جانب سے کتنی حمایت مل رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی نے اگر آئندہ انتخابات میں مرکز میں کامیابی حاصل کر لی تو بلوچستان میں حکومت بنانے میں انہیں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ایسی صورت میں ثنا اللہ زہری خود کو وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کریں گے۔‘
انور ساجدی کے مطابق ان سیاسی شخصیات کی شمولیت سے بلوچستان کے سیاسی میدان پر فرق پڑے گا۔ صوبے میں پیپلز پارٹی انتخابی طور پر کمزور ہے شاید انہیں دو چار نشستیں مل جائیں۔ اس وقت تو بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی سے بالکل خالی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اسمبلی میں کس کی کتنی نمائندگی ہے۔ بلوچستان میں تو ایک نشست والا بھی وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔‘
اگر پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت بنی تو وہ بلوچستان میں بھی پہلے کی طرح حکومت بنا سکتی ہے۔‘
انور ساجدی کا مزید کہنا تھا کہ اقتدار کے بعد جب دن پھر جاتے ہیں تو الیکٹ ایبلز پھر کسی دوسری جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 میں بلوچستان میں اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کا 2013 اور 2018ء کے الیکشن میں صوبے سے بالکل صفایا ہوگیا۔
شہزادہ ذوالفقار بھی سمجھتے ہیں کہ ’ماضی میں بھی پیپلز پارٹی یا کسی دوسری وفاقی جماعت نے بلوچستان میں کبھی بھی اپنے بل بوتے یا نظریے کی بنیاد پر اقتدار حاصل نہیں کیا۔‘
’بلوچستان میں بیشتر لوگ اپنی انفرادی اور قبائلی حیثیت کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں یہ الیکٹ ایبلز سیاسی ہوا کا رُخ دیکھ کر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور حالات تبدیل ہونے پر پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’2008 میں بینظیر بھٹو کے قتل اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث حالات پیپلز پارٹی کے حق میں تھے مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کی 51 عام نشستوں میں سے صرف آٹھ پر کامیابی حاصل کی۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ان میں بھی نواب اسلم رئیسانی جیسے لوگوں نے اپنی قبائلی حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ باقی کئی لوگ تو صرف دو سے تین ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔ آزاد امیدواروں اور خواتین کی نشستوں کے بعد پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کی تعداد 14 ہوئی۔
ان سے عددی حیثیت میں ق لیگ اوپر تھی جس کے 20 ارکان تھے مگر ان سب نے اپنا وزیراعلیٰ لانے کے بجائے نواب رئیسانی کا ساتھ دیا کیونکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔