60 سالہ حمید نوری پر سویڈن کی استغاثہ کا الزام ہے کہ انہوں نے 30 جولائی سے 16 اگست 1988 تک ’دانستہ طور پر ان قیدیوں کی بڑی تعداد کی جان لی تھی، جن کو پیپلز مجاہدین کے ساتھ ہمدردی تھی یا وہ اس کا حصہ تھے۔‘
حمید نوری اس وقت تہران کے قریب کاراج شہر میں گوہرداشت جیل کے نائب گورنر کے اسسٹنٹ تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کافی عرصے سے تقریباً پانچ ہزار قیدیوں کے مارے جانے پر انصاف کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔
ایران اور عراق کے درمیان 1980 سے لے کر 1988 تک جاری رہنے والی جنگ کے اختتام پر پیپلز مجاہدین نے حملے کیے تھے جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے مبینہ طور پر ان قیدیوں کی ہلاکت کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم سویڈن کی عدالت کے عہدے داروں کا ماننا ہے کہ ان ہلاکتوں پر کسی شخص کے خلاف منگل کو شروع ہونے والا مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔
1988 میں آیت اللہ خمینی نے ان قیدیوں کی ہلاکت کے احکامات جاری کیے تھے جو پیپلز مجاہدین کے حامی تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ الزامات 30 شکایت کنندگان سویڈن میں حکام کی معلومات میں لائے تھے۔ان شکایت کنندگان میں سابق سیاسی قیدی ایرج مصداقی شامل ہیں۔
حمید نوری کے خلاف ’کچھ ہزاروں صفحات‘ کے ثبوت کی دستاویز جمع کر کے، ایرج مصداقی نے انہیں ایک لگژری کروز پر سواری کے لیے جانے پر قائل کیا۔ تاہم جیسے ہی حمید نوری سویڈن کی حدود میں داخل ہوئے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
سویڈین کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جس کسی بھی ملک میں قتل یا جنگی جرم ہوا ہو اس میں ملوث شخص کے خلاف سویڈن میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
تاہم ملزم کے وکیل تھامس سوڈرکویسٹ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ حمید نوری نے ’1988 کی مبینہ ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔‘