Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زبردستی سے جے شری رام نہیں بولوں گا‘، انڈین رپورٹر کی ویڈیو وائرل

انمول پریتم ایک انڈین ویب چینل سے منسلک ہیں اور وہ 8 اگست کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اشونی اوپادھے کی جانب سے منعقد کردہ ایک احتجاج پر رپورٹنگ کرنے نئی دہلی کے علاقے جنتر منتر پہنچے۔
یہ ریلی منعقد کرنے کا مقصد نوآبادیاتی قوانین کے خلاف احتجاج کرنا تھا لیکن جب انمول پریتم جنتر منتر پہنچے تو انہوں نے ہزاروں افراد کو فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی نعرے لگاتے ہوئے پایا۔
ان کے وہاں پہنچنے کے بعد کیا ہوا یہ انمول پریتم کی جانب سے ٹوئٹر پر شئیر کی گئی ایک ویڈیو میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
انڈین رپورٹر اپنی ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ ’احتجاج کے دوران انہیں دھمکا کر ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا اور جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں دھکے دیے گئے۔‘
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رپورٹر مظاہرین میں گھرے ہوئے ہیں اور ایک شخص انہیں انتہائی جذباتی انداز میں کہتا ہے کہ ’یا تو یہاں سے باہر جاؤ گے یا پھر تمہیں (جے شری رام) بولنا پڑے گا۔‘
انمول ان کو جواب دیتے ہیں کہ ’میری بات سنیے، میرا من کرے گا تو میں بول دوں گا لیکن زبردستی آپ لوگ نہیں بلوا سکتے مجھ سے۔‘
’آپ اتنے سارے گھیر کے مجھے کہیں گے کہ تم جے شری رام بولو تو نہیں بولوں گا۔‘
وہ یہ کہتے ہوئے کہ ’میں ان کی بات نہ مانوں تو میں غلط‘ باہر نکل جاتے ہیں۔
اس حوالے سے انمول کے ویب چینل نیشنل دستک نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد ہندو جماعت دلت یا دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہندو نہیں مانتی۔‘
ویب چینل کی جانب سے شئیر کی جانے والی ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ انمول کو دھکے دے رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں بھی ایک ادھیڑ عمر شخص انمول سے کہتا ہے کہ ’جے شری رام بولو، جے شری رام بولو‘، ایک اور شخص کہتا ہے کہ ’یہ جے شری رام نہیں بولے گا کیونکہ اس کے منہ میں دہی جمی ہوئی ہے۔‘
انمول نے اس واقعے کے بعد نیوز لانڈری نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ انہوں نے مظاہرین سے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں غربت کے بڑھنے پر ایک سوال کیا جس کے بعد وہ بپھر گئے اور انہیں ڈرانا شروع کر دیا اور یہ بھی کہا کہ انمول کا ’جہادی چینل‘ سے تعلق ہے۔

ٹوئٹر پر انمول کی بہادری اور جرأت کے چرچے

سوشل  میڈیا پر صحافی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات انمول کی بہادری پر انہیں سراہ رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ رپورٹر نے بپھرے ہوئے مظاہرین کے دباؤ میں نہ آ کر جرات کر مظاہرہ کیا۔
صحافی ابھیشیک بازی کہتے ہیں کہ ’اسٹار اینکر جن کے ساتھ سکیورٹی ہوتی ہے وہ اس کے مقابلے میں بہت کم جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ریا نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ سب مودی اور ان کی فاشسٹ حکومت نے ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہے کہ آج ایک ہندو بھی محفوظ نہیں۔‘
برطانوی اخبار انڈپینڈنٹ کی ساؤتھ ایشیا کی ڈپٹی ایڈیٹر رتوپرنا چیٹرجی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ مذہب کے نام پر سراسر بدمعاشی ہے۔ یہ لوگ انڈیا اور ہندوازم کو بدنام کر رہے ہیں۔‘
صحافی سمیتا شرما نے انمول کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بدمعاشی ہے۔ اپنے مذہب کا پرچار کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔‘
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر بھی انمول کی بہادری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’یہ تمام صحافیوں کے لیے ایک سبق ہے۔‘
 

شیئر: