انمول پریتم ایک انڈین ویب چینل سے منسلک ہیں اور وہ 8 اگست کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اشونی اوپادھے کی جانب سے منعقد کردہ ایک احتجاج پر رپورٹنگ کرنے نئی دہلی کے علاقے جنتر منتر پہنچے۔
یہ ریلی منعقد کرنے کا مقصد نوآبادیاتی قوانین کے خلاف احتجاج کرنا تھا لیکن جب انمول پریتم جنتر منتر پہنچے تو انہوں نے ہزاروں افراد کو فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی نعرے لگاتے ہوئے پایا۔
مزید پڑھیں
-
اہم شخصیات کا مودی کو خط:’جے شری رام کے نام پر قتل و غارت گری‘Node ID: 426986
-
انڈین صحافی کی اس تصویر پر ہنگامہ کیوں؟Node ID: 439361
ان کے وہاں پہنچنے کے بعد کیا ہوا یہ انمول پریتم کی جانب سے ٹوئٹر پر شئیر کی گئی ایک ویڈیو میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
मुझसे डरा धमकाकर "जय श्री राम"बुलवाने की कोशिश की गई. जब मैंने मना किया तो मेरे साथ धक्का मुक्की भी किया गया. आप लोग वीडियो में खुद ही देख लीजिए@NationalDastak @Profdilipmandal pic.twitter.com/iswtGbff72
— Reporter Anmol Pritam (@anmolpritamND) August 8, 2021
انڈین رپورٹر اپنی ٹوئٹ میں کہتے ہیں کہ ’احتجاج کے دوران انہیں دھمکا کر ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا اور جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں دھکے دیے گئے۔‘
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رپورٹر مظاہرین میں گھرے ہوئے ہیں اور ایک شخص انہیں انتہائی جذباتی انداز میں کہتا ہے کہ ’یا تو یہاں سے باہر جاؤ گے یا پھر تمہیں (جے شری رام) بولنا پڑے گا۔‘
انمول ان کو جواب دیتے ہیں کہ ’میری بات سنیے، میرا من کرے گا تو میں بول دوں گا لیکن زبردستی آپ لوگ نہیں بلوا سکتے مجھ سے۔‘
’آپ اتنے سارے گھیر کے مجھے کہیں گے کہ تم جے شری رام بولو تو نہیں بولوں گا۔‘
وہ یہ کہتے ہوئے کہ ’میں ان کی بات نہ مانوں تو میں غلط‘ باہر نکل جاتے ہیں۔
اس حوالے سے انمول کے ویب چینل نیشنل دستک نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد ہندو جماعت دلت یا دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہندو نہیں مانتی۔‘
तथाकथित नक़ली हिंदू संगठनों ने बहुजन पत्रकार @anmolpritamND को धमकाने की कोशिश की।
इस घटना से यही प्रतीत होता है कि यह तथाकथित हिंदू संगठन दलित, ओबीसी समाज से आने वाले लोगों को हिंदू नही मानते हैं।
नेशनल दस्तक टीम इस घटना की निंदा करती हैं।#bahujanmedia pic.twitter.com/ArT6PswjUo
— National Dastak (@NationalDastak) August 8, 2021
ویب چینل کی جانب سے شئیر کی جانے والی ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ انمول کو دھکے دے رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں بھی ایک ادھیڑ عمر شخص انمول سے کہتا ہے کہ ’جے شری رام بولو، جے شری رام بولو‘، ایک اور شخص کہتا ہے کہ ’یہ جے شری رام نہیں بولے گا کیونکہ اس کے منہ میں دہی جمی ہوئی ہے۔‘
انمول نے اس واقعے کے بعد نیوز لانڈری نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ انہوں نے مظاہرین سے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں غربت کے بڑھنے پر ایک سوال کیا جس کے بعد وہ بپھر گئے اور انہیں ڈرانا شروع کر دیا اور یہ بھی کہا کہ انمول کا ’جہادی چینل‘ سے تعلق ہے۔
ٹوئٹر پر انمول کی بہادری اور جرأت کے چرچے
سوشل میڈیا پر صحافی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات انمول کی بہادری پر انہیں سراہ رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ رپورٹر نے بپھرے ہوئے مظاہرین کے دباؤ میں نہ آ کر جرات کر مظاہرہ کیا۔
صحافی ابھیشیک بازی کہتے ہیں کہ ’اسٹار اینکر جن کے ساتھ سکیورٹی ہوتی ہے وہ اس کے مقابلے میں بہت کم جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘
Star anchors with security details show far less courage than @anmolpritamND. https://t.co/mfizaQyiaI
— Abhishek Baxi (@baxiabhishek) August 9, 2021
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ریا نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ سب مودی اور ان کی فاشسٹ حکومت نے ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہے کہ آج ایک ہندو بھی محفوظ نہیں۔‘
Exactly this is what Modi n his fascist govt have done to our country...
Even a hindu isn't safe. https://t.co/zG6SJBQRmL— Ria (@RiaRevealed) August 9, 2021
برطانوی اخبار انڈپینڈنٹ کی ساؤتھ ایشیا کی ڈپٹی ایڈیٹر رتوپرنا چیٹرجی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ مذہب کے نام پر سراسر بدمعاشی ہے۔ یہ لوگ انڈیا اور ہندوازم کو بدنام کر رہے ہیں۔‘
"Mera man karega toh bol dunga, lekin jabardasti nahi." Reporter stands his ground when being forced to chant "jai shree ram."
This is plain bullying in the name of religion. These people are bringing shame to both India and Hinduism. https://t.co/t0JkR80PxJ
— Rituparna Chatterjee (@MasalaBai) August 9, 2021
صحافی سمیتا شرما نے انمول کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بدمعاشی ہے۔ اپنے مذہب کا پرچار کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔‘
Kudos to @anmolpritamND for standing his ground. This is bullying by the mob- Not how faith or any religion should be practised. https://t.co/apfvw3DLgn
— Smita Sharma (@Smita_Sharma) August 9, 2021