دیو قامت جہاز ایورگیون نہر سوئز احتیاط سے عبور کر گیا
دیو قامت جہاز ایورگیون نہر سوئز احتیاط سے عبور کر گیا
ہفتہ 21 اگست 2021 19:49
جہاز رانی کی 15 فیصد ٹریفک نہر سوئز کے راستے سے گزرتی ہے۔ (فوٹو سی این بی سی)
دیو قامت بحری جہاز ایور گیون جس نے رواں سال مارچ میں نہر سوئز کو چھ دن کے لیے ہر قسم کی بحری ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔ اس حادثے کے بعد گذشتہ روزجمعہ کو ایک بار پھر اسی آبی گزرگاہ کو بحفاظت اور احتیاط کے ساتھ عبور کر کے مصر کی حدود سے نکل گیا ہے۔
روئیٹرز نیوز ایجنسی کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ سوئز کینال اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا ہےکہ ایورگیون کا روٹ انگلینڈ سے چین کی جانب تھا جو کہ بحیرہ روم سے بحیرہ احمر کی طرف جانے والے 26 بحری جہازوں کے قافلے میں شامل تھا۔ اس دوران مزید 36 بحری جہازوں نے بھی یہ آبی گزرگاہ عبور کی ہے۔
سوئز کینال اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا ہےکہ ایور گیون کے نہر سوئز کے اس سفر کے دوران دو ٹگ کشتیوں نے پورے راستے میں جہاز کی حفاظت اور نگرانی کی ہے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق اس بحری جہاز کو لائیو شپ ٹریکنگ کے ذریعے بحیرہ احمر کی طرف جاتے ہوئے دکھایا گیاہے۔
واضح رہے کہ دنیا کے سب سے بڑے بحری جہاز کا شمار کنٹینرز کیریئر جہازوں میں ہوتا ہے۔ یہ جہاز تیز ہواؤں کی وجہ سے 23 مارچ کو نہر سوئز کے راستے میں پھنس گیا تھا۔
اس دیو ہیکل جہاز کو نہر سوئز کے آبی راستے سے ہٹانے کے آپریشن کے دوران سیکڑوں جہازوں کے سفر میں تاخیر ہوئی تھی ۔ اس راستے کی رکاوٹ کی وجہ سے کئی ایک جہازوں کو افریقہ کے جنوبی حصے کی جانب سے بہت طویل راستہ اختیار کرنا پڑا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ اس طویل قامت جہاز کو نہر سوئز میں واپس سیدھا کرنے کے لیے 106 دن کا عرصہ لگا تھا۔
اس رکاوٹ کو ہٹانے کے بعد مصر کی سوئز کینال اتھارٹی ، جہاز مالکان اور بیمہ کمپنی کے مابین سمجھوتے کے بعد ایور گرین کو یہاں سے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
نہر سوئزکے ذریعے ایورگیون جہاز کا یہ 22 واں سفر تھا۔ یہ 29 جولائی کو انگلینڈ کے شہر فیلکسٹو جانے سے پہلے روٹرڈیم کی ڈچ بندرگاہ پر پہنچا تھا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں جہاز رانی کی ٹریفک کا تقریبا 15 فیصد حصہ نہر سوئز کے راستے سے گزرتا ہے۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان جہاز رانی کا یہ سب سے چھوٹا راستہ ہے۔
نہر سوئز مکمل طور پر احتیاط سے عبور کر لینے کے بعد شپنگ ٹریکنگ ویب سائٹ پر اس وقت ایورگیون جہاز کو اس وقت بحر احمر میں دکھایا جا رہا ہے۔