Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے متعلق پارلیمنٹ کو بے خبر کیوں رکھا گیا ہے؟‘

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ گرپوں کے ساتھ مذاکرات کے بیان پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ریاست کی پالیسیاں ایک مخصوص پس منظر میں بنتی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروہ ہیں۔ ان گروہوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ اپنی وفا کا عہد نبھانا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ریاست کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں۔ ۔وزیراعظم نے جو آج اصول وضع کیے ہیں جن کے اوپر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیر حسین بخاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بیان انتہائی حساس ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کو معاف کردینے کا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرت کیے جانے والے مذاکرات کے متعلق پارلیمنٹ کو بائے پاس کیا گیا ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ نیر حسین بخاری نے استفسار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے متعلق پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو بے خبر کیوں رکھا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ افغانستان میں جاری مذاکرات کی کیا شرائط ہیں؟
پی پی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیرحسین بخاری نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر مذاکرات سے متعلق اعتماد میں لے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے لیے این آر او؟ وزیراعظم عمران خان ٹی ٹی پی کو این آر او دینا چاہتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہوں نے اے پی ایس کے سینکڑوں بچوں، ہماری فوج بہادر سپاہیوں، پولیس اور عام شہریوں کو مارا۔ بہت عجیب بات ہے۔‘
واضح رہے کہ ابھی تک مسلم لیگ ن نے وزیر اعظم کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین بھی اس حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شیریں بنگش نے لکھا کہ ’اگر اپنے لیڈر پر بھروسہ اور اعتماد ہو تو ہر صلح حدیبیہ کا نتیجہ فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔‘
ٹوئٹر صارف عرفان الدین نے لکھا کہ ’ان نام نہاد مذاکرات سے ٹی ٹی پی کو فائدہ ہوگا۔ شاید مختصر مدت کے لیے دہشت گردی کے حملے کم ہو جائیں، لیکن اس سے ان گروہوں کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔
عمار ناصر نے لکھا کہ ’یہ لوگ پشاور آرمی پبلک سکول کے 132 معصوم بچوں سمیت 70 ہزار پاکستانیوں کے قاتل ہیں ہم نے کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘
اعجاز راجہ نے لکھا کہ ’اب کوئی نئے طریقے سے مزاکرات ہوں گے؟ جن کی اولادیں شہید ہوئیں ان کا کیا؟ میرے دو کزنز شہید ہوئے اس ملک میں امن کے لیے. ان کا خون رائیگاں گیا۔ ان سے مذاکرات کریں۔ یہ مضبوط ہوں گے۔ ری گروپ ہوں گے اور پھر سے کشت و خون کا بازار گرم ہوگا۔ شہیدوں کے وارثوں سے تو پوچھ لو ایک بار۔
رمشا نے لکھا کہ ’جو ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں انہیں ایک بار موقع دینا چاہیے۔ اس وقت ریاست کا ہاتھ اوپر اگر کوئی عناصر پھر بھی لڑنا چاہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘
 

شیئر: