جمال السادات: ’تاریخ نے میرے والد کو درست ثابت کیا‘
جمال السادات: ’تاریخ نے میرے والد کو درست ثابت کیا‘
بدھ 6 اکتوبر 2021 17:11
انور سادات اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے والے پہلے عرب رہنما تھے۔ فوٹو اے ایف پی
مصر کے صدر انور سادات کو اکتوبر 1981 میں اسلامی شدت پسندوں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب دارالحکومت قاہرہ میں یوم فتح کی تقریبات کے موقع پر وہ فوجی پریڈ کا جائزہ لے رہے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق انور سادات کا جسم گولیوں سے چھلنی تھا۔ انہیں فوری طور پر معادی ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا لیکن ’شدید صدمے اور چھاتی میں اندرونی طور پر خون بہنے سے‘ ان کی جان نہ بچ سکی۔ حملے کے دو گھنٹے بعد دوپہر 2 بج کر 40 منٹ پر انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔
موت سے دو سال قبل انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے والے پہلے عرب رہنما تھے۔ اس فیصلے سے مصریوں کی بڑی تعداد ناراض بھی ہوئی جس کے نتیجے میں صدر انور سادات کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہوا۔
لیکن انور سادات کے قتل کے امن عمل پر خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی مذاکرات جاری رہے جن کے نتیجے میں سنہ 1982 میں مصر اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
صدر انور سادات کی چالیسویں برسی سے قبل عرب نیوز نے ان کے بیٹے جمال السادات سے خصوصی انٹرویو کیا جس میں انہوں نے اپنے والد کی سیاسی میراث، ان کے اقدار اور موت کے حوالے سے گفتگو کی۔
جمال السادات نے بتایا کہ 6 اکتوبر 1981 کو جب ان کے والد پر قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ امریکہ میں تھے۔
’میں اسی وقت (ریاست) فلوریڈا پہنچا تھا۔ مچھلیوں کے شکار کا منصوبہ تھا جو ممکن ہی نہیں ہو سکا تھا۔ وہ واحد موقع تھا جب میں پریڈ میں شامل نہیں تھا۔‘
قاہرہ میں یوم فتح کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ کے دوران مصری فوج میں تعینات لفٹیننٹ خالد الاسلامبولی کی سربراہی میں آرمی یونیفارم میں ملبوس چند افسران سٹیج کے سامنے رکے تھے اور حکومتی عہدیداروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
انور سادات پر چار مرتبہ گولیاں برسائیں گئیں۔ قاتلانہ حملے کے دو گھنٹے بعد ہی وہ فوت ہو گئے تھے جبکہ دس اور افراد کی بھی موت واقع ہوئی تھی۔
جمال السادات نے بتایا کہ ہوٹل کے منیجر کے فون سے ان کی آنکھ کھلی جس نے انہیں آگاہ کیا کہ پریڈ میں فائرنگ ہوئی ہے اور ان کے والد بھی واقعے میں زخمی ہیں۔
’میں نے قاہرہ فون کیا لیکن نہیں ملا، پھر خبریں لگائیں تو بتایا جا رہا تھا کہ انور سادات کا بازو زخمی ہوا ہے لیکن ان کی حالت مستحکم ہیں۔ میں قاہرہ فون کرنے کی کوشش کرتا رہا جب تک کہ والدہ (جہان سادات) سے بات نہیں ہو گئی، انہوں نے مجھے واضح طور پر بتایا کہ میرے والد فوت ہو گئے ہیں۔‘
جہان سادات بھی اسی سٹیج پر اپنے شوہر سے چند میٹر دور کھڑی تھیں جسے شدت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا۔
جمال السادات کو آج بھی وہ تمام واقعات واضح طور پر یاد ہیں جو ان کے قاہرہ واپس لوٹنے پر رونما ہوئے تھے۔ تب تک ان کے والد کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا۔ اس وقت یہ نقطہ نظر پیش کیا جا رہا تھا کہ شاید انور سادات کی موت میں اندرونی ہاتھ ملوث ہے۔
’مجھے وزیراعظم ڈاکٹر فواد موحی الدین کی طرف سے فون آیا جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پوسٹ مارٹم کروانا چاہتے ہیں کیونکہ ایک گولی جسم کے اندر موجود ہے۔ اور ہمیں تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں میرے والد کے اپنے محافظوں نے ہی تو انہیں قتل نہیں کیا۔‘
جمال السادات نے پوسٹ مارٹم کے دوران موجود رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
’پوسٹ مارٹم رپورٹ میں معلوام ہوا کہ جب فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو میرے والد کھڑے ہو گئے تھے اور ان کے بازو اور ٹانگ کے اوپر کے حصے پر گولیاں لگیں تھیں، جو جان لیوا نہیں تھیں۔ لیکن پریڈ ٹرک میں موجود اے کے 47 رائیفل میں سے ایک گولی چلی جو میرے والد کے سامنے موجود کاؤنٹر سے ٹکرا کر اوپر کی سمت کو گئی اور ان کے سینے میں داخل ہو گئی۔ گولی ان کے دل میں سے گزر کر گردن میں پھنس گئی تھی۔‘
جمال السادات کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے تمام شکوک و شبہات دور کر دیے تھے کہ ان کے والد کے قتل میں اندرونی عناصر کا عمل دخل تھا۔ ان کی سکیورٹی پر مامور افراد صرف پستول اپنے پاس رکھتے تھے۔‘
موت سے تقریباً دو سال قبل انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ تنازعے کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔
ان کی اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن سے ملاقات اور اسرائیلی پارلیمان سے خطاب پر عرب دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جبکہ عالمی ردعمل قدرے مختلف تھا۔ انور سادات اور مناخم بیگن کو 1978 میں مشترکہ امن نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
جمال السادات نے بتایا کہ ’یروشلم جانے سے پہلے میرے والد شام گئے جہاں انہوں نے صدر (حافظ) الاسد سے ملاقات کی تاکہ انہیں بھی ساتھ جانے پر قائل کریں۔ صدر الاسد میرے والد کے بہت قریبی ساتھی تھے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔‘
’تو پھر میرے والد نے ان سے کہا کہ میں آپ کی اجازت چاہتا ہوں کہ میں آپ کی طرف سے وہاں بات کروں، اگر میں ناکام ہو گیا تو یہ صرف میری ناکامی ہو گی، اور اگر کامیاب ہوا تو یہ ہم دونوں کی کامیابی ہوگی۔ لیکن اسد نے انہیں کہا کہ وہ اس کی بھی اجازت نہیں دیں گے۔‘
’میرے والد پھر چلے گئے لیکن وہ بہت زیادہ ناخوش تھے، کیونکہ یہ ایسی پیشکش تھی جو اس وقت شام کے لیے نقصان دہ نہ ثابت ہوتی۔‘
جمال السادات نے مزید بتایا کہ اسرائیل تنازعے کے حل سے متعلق ان کے والد کا خیال تھا کہ ملٹری کا کردار ختم ہو گیا ہے، یہ معاملہ سیاسی طور پر یا سفارتکاری کے ذریعے حل ہوگا۔
مصر کے علاقائی اتحادیوں کی تنقید کے باوجود انور سادات نے اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھے۔ ستمبر 1978 میں دونوں رہنماؤں کی ایک مرتبہ پھر امریکہ میں ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر صدر جمی کارٹر کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کی۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اسرائیل اور کسی بھی ہمسایہ عرب ملک کے درمیان ہونے والا پہلا معاہدہ تھا جس نے دو ممالک کے درمیان سفارتی اور کمرشل تعلقات کی بنیاد رکھی۔
امن کے لیے شروع ہونے والی کوششوں کو عرب دنیا میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ رد عمل میں مصر پر سیاسی، معاشی اور سفارتی پابندیاں لگائی گئیں اور عرب لیگ میں بھی اس کی رکنیت معطل کر دی گئی۔ عرب لیگ کا ہیڈ کوارٹر قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا گیا تھا۔
آج تقریباً چالیس سال بعد مصر کے علاوہ پانچ دیگر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں جن میں اردن، عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش شامل ہیں۔
’جب میرے والد نے جمال عبدالناصر کے بعد صدارت کا منصب سنبھالا تو انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے کئی تجاویز پیش کیں لیکن انہیں سنجیدگی سے نہ لیا گیا، مکمل طور نظر انداز کیا گیا۔ میرے والد کو سمجھ آ گیا کہ دنیا صرف طاقت کی بات سنتی ہے۔ اکتوبر کی جنگ میں مصر نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کے ردعمل میں وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔‘
تاہم جمال السادات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسرائیل کے ساتھ 1973 کی جنگ میں مصر کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
’اسرائیلی نہر سوئز کی مغربی جانب آ گئے تھے، انہوں نے سوئز پر قبضے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، اور مغرب کی جانب مزید آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔ مصری فوج نے مغرب کی جانب راستہ بلاک کیا ہوا تھا۔‘
جمال السادات نے مزید کہا کہ ’میرے والد کو پہلے ہی امن معاہدے کی ضرورت کی سمجھ آ گئی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ جنگیں مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ دیگر عرب ممالک بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شامل ہوں اور تاریخ نے ان کے نظریے کو درست ثابت کیا ہے۔ عرب ممالک نے اب اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا شروع کیے، انہیں سمجھ آئی کہ واحد حل سیاست اور مذاکرات میں ہی ہے۔‘
جمال السادات نے اپنے والد کی شاہ ایران کے ساتھ کی گئی فراخ دلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے اصولوں کا ثبوت ہے جن کے تحت انور سادات نے اپنی ساری زندگی گزاری۔
شاہ ایران محمد رضا پہلوی نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر کا ساتھ دیتے ہوئے طبی امداد اور ڈاکٹر بھجوائے تھے۔ ایران میں جب 1979 کے انقلاب کے نتیجے میں شاہ ایران کو جلا وطنی میں کئی ممالک میں زندگی گزارنا پڑی۔ اس دوران وہ مراکش، بحاماس، میکسیکو، امریکہ اور پانامہ منتقل ہوئے، لیکن بالآخر 24 مارچ 1980 کو مصر کے صدر انور سادات نے محمد رضا پہلوی کا اپنے ملک میں استقبال کیا جہاں انہوں نے باقی کا عرصہ گزارا۔
’میرے والد کسی سے بھی دشمنی نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ یہ حقیقت مسترد نہیں کر سکتے تھے کہ اس شخص (شاہ ایران) نے مصر کا ساتھ دیا، صرف میرے والد کا ہی نہیں لیکن ضرورت کے وقت مصر کا ساتھ دیا تھا۔‘
جمال سادات کے خیال میں انور سادات صرف مصر کے صدر ہی نہی تھے بلکہ وہ اپنے والد کو ایک رحم دل اور سادہ انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
’انور سادات ایک ایسے شخص تھے جو حقیقت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مشکل زندگی گزاری تھی اور وہ سمجھ سکتے تھے کہ غریب ہونا کیسا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو سراہتے تھے اور جانتے تھے کہ زندگی میں پیسے اور سیاست کے علاوہ دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔‘
انور ساادات نیل ڈیلٹا سے تعلق رکھنے والے کسان خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مصر کی فوج میں بھرتی ہوئے، دوسری جنگ عظیم کے دوران محوری طاقتوں کا ساتھ دیا اور برطانیہ کے خلاف سرگرم عمل رہے جس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔
انور سادات ’فری آفیسرز‘ گروپ کے سینیئر رکن تھے جس نے 1952 کے مصری انقلاب کے دوران شاہ فاروق کا تختہ الٹا تھا۔ وہ جمال النصر کے قریبی ساتھی بھی تھے جن کے ساتھ انہوں نے دو مرتبہ بطور نائب صدر کام کیا۔
’میرے والد مذہبی اور عاجز انسان تھے۔ انہوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو ملک سے پیار کرنا سکھایا اور کسی کی بھی حیثیت سے بالاتر ہو کر لوگوں کی عزت کرنے کو کہا۔ وہ غریبوں کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے تاکہ میں یہ سیکھ سکوں کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔‘
رواں سال جولائی میں انور سادات کی اہلیہ جہان سادات کی 88 سال کی عمر میں کینسر سے موت واقع ہوئی تھی۔ جہان سادات نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سماجی انصاف اور خواتین کے حقوق کی پاسداری میں وقف کیا۔
جہان سادات مصر کے قوانین میں اصلاحات متعارف کروانے کے لیے بھی جدوجہد کرتی رہیں جن کے تحت خواتین کو شوہر کو طلاق دینے اور بچوں کو اپنی تحویل میں رکھنے کا حق حاصل ہوا۔
جہان سادات نے لٹریچر میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں قاہرہ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتی رہیں۔
جمال سادات نے بتایا کہ والد کے دور میں اور اس کے بعد بھی ان کی والدہ عوامی شخصیت تھیں۔
’وہ بہت ہی مضبوط خاتون تھیں۔ میرے والد کی وفات کے بعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھیں۔ انہوں نے اپنا کیریئر جاری رکھا اور عرب لٹریچر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ امریکہ میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتی رہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے آخر تک کام کرتی رہی تھیں۔
جہان سادات کی عمر 46 برس تھی جب ان کے شوہر انور سادات کو قاتلانہ حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ جہان سادات نے باقی کی زندگی اپنے شوہر کے امن کے نظریے کو آگے بڑھانے میں وقف کی۔