اسلام آباد میں 390 سکول میونسپل کارپوریشن کے ماتحت کر دیے گئے
اسلام آباد میں 390 سکول میونسپل کارپوریشن کے ماتحت کر دیے گئے
جمعہ 3 دسمبر 2021 5:25
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وفاقی وزارت تعلیم نے اسلام آباد کے 390 تعلیمی اداروں کا انتظام میونسپل کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے زیرانتظام کردیا ہے جس سے ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طلبہ متاثر ہوں گے۔
تاہم وفاقی وزارت تعلیم نے آرڈیننس کے اجرا سے قبل ہی اسلام آباد کے 33 ایلیٹ تعلیمی اداروں کو اپنے ماتحت رکھنے کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا۔
اس طرح عملی طور پر اسلام آباد کے مشہور پوش سکولز جیسا کہ اسلام آباد کالج فار بوائز اینڈ اسلام آباد کالج فار گرلز سمیت 33 ایلیٹ تعلیمی ادارے وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کام کرنے والے فیڈرل کالج آف ایجوکیشن کے زیرانتظام ہی رہیں گے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب 22 نومبر کو جاری کیے گئے نوٹی فیکیشن کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تقریباً ہر سیکٹر میں موجود پوش سمجھے جانے والے تعلیمی اداروں کا انتظامی اختیار فیڈرل کالج آف ایجوکیشن ایچ نائن کو دے دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ وہ سکولز اور کالجز ہیں جنہیں ماڈل کالجز کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا نام اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز یا بوائز سے شروع ہوتا ہے۔
یہ وہ سکولز ہیں جہاں ماضی میں پاکستان کی اشرافیہ زیر تعلیم رہی ہے، گو کہ ان کا معیار بھی گذشتہ برسوں میں گرا ہے تاہم ابھی بھی اسلام آباد میں سرکاری سکولوں میں والدین کی پہلی ترجیح ماڈل کالجز ہی ہوتے ہیں۔
دوسری جانب باقی 390 سکولز جن میں زیادہ تر عام شہریوں کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں کا انتظام وفاقی وزارت تعلیم کی مشاورت سے میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔
تاہم ان میں کام کرنے والے 16 ہزار اساتذہ اور چار ہزار ملازمین کو حکومت کا یہ فیصلہ منظور نہیں جس کی وجہ سے منگل سے یہ سکولز احتجاجاً بند ہیں جبکہ اساتذہ اور ملازمین نے جمعرات کو ڈی چوک پر ایک بڑا مظاہرہ بھی کیا۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر وزارت وفاقی تعلیم کے ترجمان اور ایڈیشنل سیکرٹری محی الدین وانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کو وزارت تعلیم کی مشاورت سے میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے ماتحت کیا گیا ہے کیونکہ یہ وفاقی کابینہ کا فیصلہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم نے پوش ادارے اپنے کنٹرول میں ہی رکھ لیے ہیں۔ ترجمان کے مطابق جو 33 ادارے وفاقی وزارت تعلیم نے اپنے ماتحت رکھے ہیں وہ سب کالج کی سطح تک تعلیم دیتے ہیں اس لیے وہ ہائر ایجوکیشن کے زمرے میں آتے ہیں۔
تاہم انہیں بتایا گیا کہ ان میں سے ڈیڑھ درجن سے زائد پرائمری کی تعلیم بھی دیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
ترجمان نے کہا کہ ان اداروں کو ایلیٹ سمجھنا بھی غلط ہے کیونکہ زیادہ تر ایلیٹ کلاس اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھی داخل نہیں کرواتی بلکہ پرائیویٹ اداروں میں داخل کرواتی ہے۔
ایک اور سوال پر وفاقی وزارت تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری محی الدین وانی کا کہنا تھا کہ مظاہرہ کرنے والے اساتذہ اور ملازمین کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نئے نظام کے تحت بھی انہیں سرکاری تنخواہ اور مراعات ملتی رہیں گی اس لیے احتجاج کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری جانب اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ تعلیم کی نجکاری کا ہے، چونکہ میونسپل کارپوریشن کو اسلام آباد میں خاکروبوں کو تنخواہ ادا کرنے میں بھی مسائل کا سامنا تھا اس لیے خدشہ ہے کہ 390 سکولز کے لیے بھی فنڈز نہیں ہوں گے اور اصل بوجھ غریب والدین پر طلبہ کی بھاری فیسوں کی شکل میں ڈالا جائے گا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مظاہرے میں شریک ایک ٹیچر نور العین کا کہنا تھا کہ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے تمام وفاقی تعلیمی اداروں کو بلدیاتی ادارے کے میئر کے ماتحت کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارا سرکاری ملازم کا درجہ ختم کردیا جائے گا اور ادارے پرائیویٹائز ہو جائیں گے۔‘
’ہمارے سکولوں میں غریب بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری کرتے ہیں تو کیا وہ اپنے بچوں کی فیس ادا کر سکیں گے۔‘
نور العین کا کہنا تھا کہ ’اساتذہ اور والدین اسلام آباد میں تعلیم کو بکنے نہیں دیں گے۔‘
سینیئر وائس چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی اظہر خان گولڑہ نے بتایا کہ آرڈیننس میں سے تعلیمی اداروں کو کارپوریشن کے ماتحت کرنے والی شق واپس نہ ہونے کی صورت میں اساتذہ کا یہ احتجاج طویل بھی ہو سکتا ہے اور اس میں آئندہ ہزاروں والدین اور بچے بھی شریک ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ’تین دن سے 400کے قریب تعلیمی اداروں میں کلاسز نہیں لی جا رہیں۔ طلبہ کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔‘
مظاہرین کے مطابق کل 390 سکولوں کو میونسپل کارپوریشن کے ماتحت کیا جائے گا جن میں تقریباً 16 ہزار اساتذہ اور چار ہزار کے قریب دیگر ملازمین کام کرتے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام سے دو لاکھ کے قریب طلبہ متاثر ہوں گے۔