Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اے پی ایس: ’قوم فرقہ وارانہ تعصب پھیلانے والوں کے خلاف کھڑی رہے گی‘

اس حملے کی ذمہ داری کلعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سات سال قبل آج ہی کے دن 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ پیش آیا تھا جب سات شدت پسندوں نے سکول میں گھس کر بچوں سمیت 144 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
واقعے کے بعد آٹھ گھنٹے جاری رہنے والے ایک ریسکیو آپریشن میں پاکستان آرمی نے ساتوں شدت پسندوں کو ہلاک کردیا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر عمر منصور کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا جسے جولائی 2016 میں امریکا نے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
سات سال بعد بھی اس حملے کی گونج پاکستان میں سنائی دیتی ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان نے دہشتگردی کو کامیابی سے شکست دے دی ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں بتانا چاہتا ہوں ہم کبھی بچ جانے والوں اور شہید بچوں کے والدین کو مایوس نہیں کریں گے۔‘
’تشدد اور اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف ہماری زیرو ٹالینرنس پالیسی ہے۔‘
وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردی ایک علیحدہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اس سانحہ کے بعد بہادر پاکستانی قوم کے حوصلے پست ہونے کی بجائے دہشت گردی کے خلاف مزید بلند ہوئے۔
 وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ اس حملے کے بعد پوری قوم متحد ہوئی اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت دشمنوں کو ان کے ٹھکانوں میں دھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا۔
پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے آج کے دن کو ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔
اپنی ایک ٹویٹ میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’سات سال پہلے یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن گیا تھا جب جوان جنازے اٹھائے گئے تھے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ میں آج پوری قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ دشمن پاکستانی قوم کے حوصلوں کو کبھی پست نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دن آئیں مل کر عہد کریں کہ پوری قوم متحد ہو کر فرقہ وارانہ، مذہبی اور نسلی تعصب پھیلانے والوں، تفرقہ پھیلانے والوں اور اپنے ناپاک سیاسی عزائم کو پورا کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اپنانے والوں کے خلاف یونہی کھڑی رہے گی اور اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کی نشاندہی کرکے ان کے تدارک میں ریاست کا ساتھ دے گی۔

ملک کے سیاسی لیڈروں کے علاوہ دیگر پاکستانی بھی آرمی پبلک سکول حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کوبھولے نہیں ہیں۔ اس وقت اس حملے سے متعلق تین ٹرینڈز ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اس سانحہ میں لگے زخم آج تک نہیں بھر پائے ہیں۔
حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر ٹوئٹر پر پوسٹ کرکے انہوں نے لکھا کہ ’وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔‘

ٹوئٹر پر کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جو اس حملے کے بعد پاکستان کی شدت پسندوں کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق سینیٹر سحر کامران نے ایک ٹویٹ میں لوگوں کو ’یاددہانی‘ کروائی کہ 16 دسمبر 2014 کو ’پوری قوم نے انتہاپسندی اور دہشتگردی کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’پھر دہشتگروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا! کلعدم تنظیمیں کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہی ہیں۔‘

ان کا اشارہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حالیہ مذاکرات کی جانب تھا۔
واضح رہے وزیراعظم عمران خان کچھ ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ حکومت کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ امن مذاکرات کررہی ہے۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور شدت پسند گروہ کے درمیان 9 نومبر کو جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا جو ایک ماہ بعد 9 دسمبر کو ختم ہوچکا ہے۔

وجاہت کاظمی نامی صارف نے اس حوالے سے لکھا کہ ’آج اے پی ایس کے شہداء کے دن ہم بحیثیت قوم یہ عزم کریں کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ  اس حملے میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی مذاکرات نہ ہوں اور شہدا کو انصاف ملے۔

شیئر: