تاریخی اعتبار سے انگریزی زبان میں zero کا پہلا استعمال سن 1598عیسوی میں ہوا (فائل فوٹو: فری پک)
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
یوں تو خواجہ الطاف حسین حالی کا یہ شعر خود اُن کی اپنی شخصیت کا ترجمان ہے، اگر پھر بھی اس شعر کو علمِ ہندسہ کی رُو سے سمجھنا ہو تو ’صِفر‘ پرغور کریں جو اپنی بے قدری کے باوجود جب کسی عدد کے بعد آتا ہے اس کی قدر بڑھا دیتا ہے۔
یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ’صِفر‘ اہل ہند کی ایجاد ہے، مگر اس کے فروغ کا سہرا اہل عرب کے سر ہے، جنہوں نے اس ’صِفر‘ سے کتنی ہی گتھیاں سلجھائیں اور نئی راہیں سُجھائیں۔
اس بے حیثیت مگر باکمال ہندسے کی عددی قدر نہ ہونے کے سبب سنسکرت میں اسے شُنیے (शून्य/śūnya ) کا نام دیا گیا، 'شُنیے' کے معنی 'خالی' کے ہیں۔ جب عربوں نے اسے اپنایا تو اسے 'خالی' ہی کی رعایت سے ’صِفر‘ پکارا۔
انگریزی زیرو(zero) کی اصل بھی یہی ’صفر‘ ہے، جس کا تلفظ طویل سفر کے بعد صفر سے زیرو ہوگیا۔ تاریخی اعتبار سے انگریزی زبان میں zero کا پہلا استعمال سن 1598 عیسوی میں ہوا، مگر عربی سے انگریزی تک کے اس سفر میں اسے کئی زبانوں کی دشت پیمائی کرنا پڑی۔
عربی کے 'صفر' کو اس کے عددی و معنوی مفہوم کے ساتھ قرون وسطیٰ کی لاطینی زبان میں بصورت زیفیرم (zephirum) خوش آمدید کہا گیا۔ یہاں سے اس کا اگلا پڑاؤ اطالوی زبان تھی، جس میں 'زیفیرم' کو زفیرو(zefiro) کہا گیا، تاہم اہل وینس نے اس 'زفیرو' کو زیویرو/zevero پکارا جو فرانسیسی زبان میں پہنچا کر زیغو/zéro ہوگیا۔ اور پھر یہی zéro انگریزی زبان میں بصورت زیرو(zero) داخل ہوا۔
انگریزی میں خفیہ نویسی یا مَرمُوز نگاری میں استعمال ہونے والی اصطلاح سائفر(cipher) اور ڈی سائفر (decipher) کی اصل بھی عربی کا یہی 'صفر' ہے۔ اس سے پہلے کہ لفظ 'صفر' کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر بات کی جائے، 'صفر' کی رعایت سے 'نونیت شرما' کا شعر ملاحظہ کریں جن کا کہنا ہے:
ساتھ رکھ مجھ کو بڑھا لے قیمت
گو مجھے تو نے صفر جانا ہے
'صفر' کے سفر پر نکلنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ حرکات ثلاثہ (زیر، زبر،پیش) یا اعراب کی تبدیلی سے بننے والی 'صفر' کی مختلف صورتیں جو معنی پیدا کرتی ہیں، ان میں ہونٹوں سے نکلنے والی باریک آواز یعنی سیٹی (Whistle)، خالی اور پیلا / زرد شامل ہے۔ پھر ان میں سے ہر ایک معنی اپنی مماثل اور مشابہ حالتوں پر اطلاق کے ساتھ نئے نئے مفہوم پیدا کرتا ہے۔
اب اس بات جائزہ لیں گے کہ ایک ہی لفظ سے یہ تین مختلف مفہوم کیسے پیدا ہوئے، اور کس طرح معنی کا ایک جہان آباد ہوگیا۔
جو لوگ موسیقی سے دل چسپی رکھتے ہیں کہ وہ اس بات سے خوب واقف ہیں کہ بانسری ہو یا بین، بربط ہو یا سارنگی ہر ساز کی آواز کا راز اُس آلہ موسیقی کے خالی پن میں موجود ہے۔ پھر خالی برتن کا شور مچانا تو عام محاورہ اور مشاہدہ ہے۔
اب اس بات کو ذہن میں رکھیں اور عربی ترکیب 'صِفَرِاْلاِنَاءُ' پر غور کریں، جس کا اطلاق اُس برتن پر ہوتا ہے جس کا خالی پن گونج پیدا کردیتا ہے۔ پھر اگر ایک طرف 'صِفَرِاْلاِنَاءُ' سے پیدا ہونے والی آواز کو 'صفیر' کا نام دیا گیا تو ساتھ ہی برتن کے خالی ہونے کی رعایت سے ہر 'خالی' چیز کو 'صِفْر' پکارا گیا۔
اب 'صِفر' بمعنی خالی کا اطلاق برتن کے علاوہ مماثل صورتین پر ملاحظہ کریں۔ بحیثیت عدد '0' اس لیے 'صفر' ہے کہ تنہا اس کی کوئی قدر نہیں ہے۔ پھر اگر صورت کی بات کریں تو بھی '0' درمیان سے خالی ہے۔
قمری مہینوں میں دوسرا مہینہ 'ص' پر زبر کے ساتھ 'صَفَر' کہلاتا ہے۔ اس مہینے کو 'صَفَر' کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ اس ماہ میں بادیہ نشینوں کے ہاں دودھ کی قلت ہوجاتی اور برتن خالی ہوجاتے تھے۔ یوں اس خالی پن کی نسبت سے خود مہینے کو 'صَفَر' کہا گیا۔
عربی میں بے ساز و سامان گھر 'صفر البيت من المتاع' اور پانی سے خالی پیالا 'صفر الاناء من الماءٌ' کہلاتا ہے۔ جب کہ پیٹ خالی ہونے کی نسبت سے بھوکا شخص کبھی 'صُفِرَ'، کبھی مُصْفُورُ' اور کبھی 'المُصْفَّرُ' پکارا جاتا ہے۔
پھر اس صفر بمعنی خالی کی رعایت سے تہی دست، مفلس اور محتاج شخص کو بھی 'مُصْفِرُ' کہتے ہیں، جب کہ تہی دست ہونا 'صفرت يده من لمال' کہلاتا ہے۔
مکررعرض ہے کہ اول خالی برتن سے پیدا ہونے والی آواز کو 'صفیر' کہا گیا، پھر پرندوں کی آواز کے علاوہ خود گانے والے پرندے اور پھر ہر دلکش آواز 'صفیر' کی تعریف میں داخل ہوگئی۔ دیکھیں خلیل الرحمن اعظمی کیا کہہ رہے ہیں:
وہ ہم صفیر تھے تو قفس بھی چمن ہی تھا
اب جیسے آشیاں بھی مرا آشیاں نہیں
کہتے ہیں خیال سے خیال سے جنم لیتا ہے، سو یہی کچھ 'صفیر' کے ساتھ بھی ہوا، آواز کی رعایت سے سیٹی (Whistle) کو بھی 'صفیر' پکارا گیا، اس کے بعد الارم اور پھر سائرن بھی اس کے مفہوم میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ عربی میں ریل کی سیٹی اگر'صَفّرَ القِطَارُ' ہے تو خطرے کی گھنٹی اور الارم اور سائرن 'صَفَّارَةُ الِانْذار' ہے۔
جب سیٹی، سائرن اور الارم 'صفیر' کہلائے تو بیپ (beep) خود ہی اس تعریف کا حصہ بن گئی۔ اگرعربی میں کہنا ہو کہ ازراہِ کرم بیپ کے بعد اپنا پیغام چھوڑیں، شکریہ، تو اسے 'من فضلك أترك رسالتك بعد سماع الصافرة۔ شكراً' کہیں گے۔
'ص' پر پیش کے ساتھ 'صفر' کی ایک صورت 'صُفْرٌ' ہے، اور اس کے معنی 'پیلا/زرد' ہیں۔ 'صُفْرٌ' بمعنی پیلا کیوں ہے یہ جاننے سے پہلے یہ نکتہ سمجھ لیں کہ قدیم عرب میں رائج تقویم (کیلنڈر) اصلاً موسمی تقویم تھی، جس کے مطابق مہینے مخصوص موسموں میں آتے تھے، نتیجتاً حج ایسے معتدل موسم میں پڑتا تھا جس کے نتیجے میں دور دراز بسنے والے عربوں کے لیے بیت اللہ کا سفر نسبتاً سہل ہوجاتا تھا۔
اس موسمی تقویم کے سبب سال جب اپنا دائرہ مکمل کرتے ہوئے 'ماہ صَفَر' میں پہنچتا، تب سبزے کے سوکھ کر زرد پڑ جانے کا موسم ہوتا تھا، یوں اس 'ماہ صَفَر' میں سبزے کے زرد پڑ جانے ہی کی نسبت سے خود 'زرد' کو 'صُفْرٌ' کا نام دے دیا گیا۔
پیلے یا زرد ہونے کی رعایت سے عربی میں سونا، پیتل اور زعفران بھی اپنے رنگ کی مناسبت سے 'صُفْرٌ؛ کہلاتے ہیں، جب کہ بیماری یا خوف سے زرد پڑجانے والا چہرہ 'أَصْفَرُ وَجْهُهُ' اور پَک کر زرد پڑجانے والی کھیتی 'اصْفَرَّ الزَّرْعُ' کہلاتی ہے۔ اب اس زرد کی رعایت سے میر تقی میر کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں: