سعودی عرب میں کھانوں کے حوالے سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے اثرات واضح طورپر دکھائی دیتے ہیں۔
برسوں سے ارض حرمین میں دنیا بھر سے آ کر آباد ہونے والوں کی عادات خاص کر خوراک مملکت میں غیر معمولی طورپر رائج ہوئیں بلکہ اب یہ کھانے یہاں کی علاقائی شناخت بھی اختیار کرچکے ہیں۔
گوشت کے کباب بنانے کا رجحان اگرچہ ہرملک میں پایا جاتا ہے۔ تقریبات ہوں یا فیملی و دوستوں کی پکنک اس موقع پر ’باربی کیو‘ کا خاص انتظام کیا جاتا ہے جس سے تقریب و پکنک کا رنگ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔
گوشت کے کباب ہر ملک میں بنائے جاتے ہیں جن کا بنیادی طریقہ تو یکساں ہوتا ہے مگر کباب کی تیاری اور اس کے لیے مصالحوں کا انتخاب ہرعلاقے کی جدا پہچان ہوتی ہے۔
سیریہ
تازہ گوشت کے بڑے بڑے مگر قدرے باریک پارچوں پر مخصوص مصالحہ لگا آگ پر بھونے گئے کباب کو ’سیریہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس ڈش کو سویا ساس، لیمون اور پیاز کے ساتھ ’صامولی‘ (بن کی طرح کی لمبی روٹی ) سے کھایا جاتا ہے۔ ’سیریہ‘ کا ذائقہ اس قدر منفرد ہے کہ اسے پہلی بار کھانے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ بار بار کھائے خاص طور پر مخصوص مصالحہ جو اس پر چھڑکا جاتا ہے وہ اس کے منفرد ذائقے کو مزید دوبالا کر دیتا ہے۔
افریقہ اور ترکی کے باشندوں کی مرغوب غذا گوشت ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے زیادہ ترخانہ بدوش ہوا کرتے تھے جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر نقل مکانی کرتے وقت اپنے ساتھ میوشی رکھا کرتے اور سفر کے دوران ان سے کھانے کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔
مکہ کے مختلف علاقوں میں افریقی باشندوں کی مخصوص بستیاں ہوا کرتی تھیں جہاں وہی روایتی انداز کے مکانات و ہوٹلز وغیرہ ہوا کرتے تھے۔
مکہ کے افریقی آبادی والے علاقے میں رہنے والے موسی جو سب سے قدیم سیرے ہوٹل کے مالک ہیں کا کہنا تھا کہ تقریبا 45 برس بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ قبل مکہ میں ’سیریہ‘ کا آغاز افریقی بستی سے ہی ہوا تھا۔ یہ نائیجریا کی خصوصی ڈش ہے۔
برسوں قبل مکہ مکرمہ میں متعارف ہونے والی ڈش ’سیریہ‘ اہل مکہ میں بھی مرغوب ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر مقدس میں اس ڈش کے متعدد پوائنٹس قائم ہوگئے۔
مکہ میں سیریہ کو متعارف کرانے والے موسی کا کہنا تھا کہ ’ایک بار میں اپنے دوستوں کے ساتھ ساحلی تفریح کے لیے گیا تھا جہاں میں نے انہیں سیریہ بنا کرکھلائے جسے سب دوستوں نے انتہائی پسند کیا اوردوبارہ فرمائش کرکے بنوائے۔
’یہاں سے مجھے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس ڈش کو بہتر انداز میں متعارف کروایا جائے جس کے لیے میں نے ایک نائیجیرین خاتون کی خدمات حاصل کیں جو مجھے مصالحے کی ترکیب بتایا کرتی تھیں۔‘
ان کے مطابق ابتدا میں سیریہ کو سڑک کے کنارے فروخت کرنا شروع کیا بعدازاں جب لوگوں نے اسے پسند کیا تو دکان بنا لی۔ ’چند ہی دنوں میں ایک اور دکان بنائی اور اب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں میرے ہوٹل کی متعدد شاخیں ہیں جہاں روزانہ سیکڑوں افراد ’سیریہ‘ کھانے آتے ہیں۔‘
سیریہ کی غیرمعمولی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدا میں صرف اہل مکہ ہی اس ڈش سے واقف تھے بعد ازاں یہ کباب مدینہ منورہ پہنچے۔
آج سے دس برس قبل تک جدہ میں سیریہ اتنے مقبول نہیں تھے لوگ مکہ یا مدینہ ہی جاکر وہاں سے سیریہ کھایا کرتے تھے مگر اب جدہ کے ہرعلاقے میں ’سیریہ ‘ کے ہوٹل موجود ہیں۔
سیریہ کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ’افریقی ڈش اہل مکہ کی شناخت بن گئی‘ ۔
آج مملکت کے مختلف شہروں میں موجود سیریہ کے ہوٹلوں کی کثرت ہے تاہم اہل مکہ کے ہاں سیریہ غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس دکان پر’سیریہ مکہ ‘ کا بورڈ ہوتا ہے وہ جلد ہی مشہور ہو جاتی ہے۔