کوئٹہ کی مارکیٹ میں آتشزدگی، ’سب کچھ آدھے گھنٹے میں جل کر راکھ ہوگیا‘
کوئٹہ کی مارکیٹ میں آتشزدگی، ’سب کچھ آدھے گھنٹے میں جل کر راکھ ہوگیا‘
جمعہ 6 مئی 2022 18:04
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
کوئٹہ کے اسی علاقے میں ایک ماہ کے دوران اس نوعیت کی آتشزدگی کا یہ دوسرا واقعہ ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)
’ہم عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے کہ اچانک اطلاع ملی کہ مارکیٹ میں آگ لگی ہے، ہم جب وہاں پہنچے تو تب تک آگ نے کافی شدت اختیار کرلی تھی اور آدھے گھنٹے میں ہماری آنکھوں کے سامنے زندگی بھر کی جمع پونجی آگ میں جل کر خاکستر ہوگئی، عید کی خوشی بھی غم میں بدل گئی۔‘
یہ کہنا ہے سید ولی کا جن کی کپڑوں کی دکان عید الفطر کے دوسرے دن آگ کی نذر ہوگئی۔ وہ ان سینکڑوں متاثرین میں شامل ہیں جن کا لاکھوں کروڑوں روپے کا سامان کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد تارو چوک میں پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعے میں جل کر خاکستر ہوگیا۔
پولیس تھانہ پشتون آباد میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق کپڑوں کی اس مارکیٹ میں تقریباً 170 چھوٹی دکانیں جل گئیں، جبکہ متاثرہ دکان داروں کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد 300 سے زائد ہیں۔
کوئٹہ کے اسی علاقے میں ایک ماہ کے دوران اس نوعیت کی آتشزدگی کا یہ دوسرا واقعہ ہے اس سے پہلے رمضان کے آغاز میں خوش حال روڈ پر واقع مارکیٹ میں 20 سے زائد دکانیں جل گئی تھیں۔
علاقے کے تاجروں کا الزام ہے کہ آتشزدگی کے دونوں واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہیں اور آگ سازش کے تحت لگائی گئی ہے۔
متاثرہ تاجر امام دین کا کہنا ہے کہ ’پولیس کہہ رہی ہے کہ واقعہ شارٹ سرکٹ کا نتیجہ ہے لیکن جس وقت آگ لگی اس وقت علاقے میں بجلی تھی ہی نہیں تو سرکٹ کیسے شارٹ ہوا؟ ایسے واقعات چھٹیوں کے دنوں میں ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت ہورہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ مدد کے لیے پہنچنے والے افراد اور فائر بریگیڈ کو بجھانے کا موقع ہی نہیں ملا سب کچھ آدھے گھنٹے میں خاکستر ہوگیا۔
امام دین کے مطابق صرف ان کا ایک کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا جن میں 91 لاکھ روپے کے خواتین کچھ فینسی جوڑے بھی شامل ہیں۔ بعض دکان داروں نے لاکھوں روپے نقدی بھی دکان میں رکھی تھی وہ بھی جل کر راکھ بن گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ دکان دار اپنا بچا کچھا سامان نکال کر مسجد میں لے گئے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں سے بھی لوگ چیزیں چوری کرکے لے گئے۔
متاثرہ دکان دار سید ولی نے بتایا کہ ہم آٹھ بجے پہنچے تو مارکیٹ سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے، دکان داروں اور علاقے کے رہائشیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیاں شروع کیں مگر آگ بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ فائر بریگیڈ والے بھی بے بس نظر آرہے تھے ۔
سید ولی کا کہنا تھا کہ انہوں نے عید کے لیے ادھار پر کپڑا خریدا تھا جس میں سے کچھ بِک گیا تھا جبکہ زیادہ بچ گیا تھا، بڑی مشکل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے تھے،آگ نے زندگی بھر کی جمع پونجی تباہ کردی۔اب حکومت ہماری مدد اور نقصانات کا ازالہ کرے۔
خیال رہے کہ کوئٹہ کی تقریباً 25 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف تین فائر سٹیشنز اور صرف 30 فائر فائٹرز ہیں جبکہ پورے شہر میں تین واٹر باؤزرز سمیت مجموعی طور پر صرف 15 گاڑیاں ہیں۔
پشتونخوا میپ کے رکن بلوچستان اسمبلی نصر اللہ زیرے کا کہنا ہے کہ آگ بجھانے میں تاخیر اور مشکلات اپنی جگہ لیکن تسلسل کے ساتھ ایک ہی نوعیت کے واقعات کا ہونا سازش اور تخریب کاری ہے۔
’ایک ماہ کے دوران آگ لگنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے ، خوش حال روڈ، کچلاک اور پھر تارو چوک میں پوری مارکیٹ جل گئی، ہمیں یقین ہے کہ یہ مارکیٹیں جلائی گئی ہیں ۔خوش حال روڈ مارکیٹ میں ہر دکان میں الگ الگ آگ لگی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خوش حال روڈ واقعے کی وجہ بھی شارٹ سرکٹ بتائی گئی ہے مگر حکومتی تحقیقاتی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ نہیں۔‘
’حالیہ آتشزدگی کو بھی شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے مگر میں نے خود مارکیٹ کا دورہ کیا اور لوگوں سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی۔‘
نصراللہ زیرے کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ کوئی گروہ منظم طریقے سے شہر کے گرد و نواح میں واقع چھوٹی مارکیٹوں کو نقصان پہنچا رہا ہے تاکہ لوگ وہاں کا رخ کرنے کے بجائے شہر کے اندر واقع دوسری بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز کا رخ کریں۔ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور متاثرین کو معاوضہ دینا چاہیے۔‘
پشتون آباد پولیس تھانے کے ایس ایچ او آصف نواز کا کہنا ہے کہ پولیس نے تارو چوک پر واقع مارکیٹ میں آتشزدگی کے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرلی ہے اور تفتیش شروع کردی ہے ابتدائی تحقیقات میں یہی معلوم ہوا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ کے چوکیدار نے خود پولیس کو بیان دیا کہ بجلی کے میٹر میں شارٹ سرکٹ پیدا ہوا جس کے بالکل نیچے ایک دکان کے باہر تھڑے پر کپڑے رکھے ہوئے تھے جنہوں نے آگ پکڑ لی اور پوری مارکیٹ کو لپیٹ میں لے لیا۔