تیر ایک صفاتی نام ہے جو اسے نوکیلے پن کی وجہ سے ملا ہے۔ فوٹو: انسپلیش
پہلے ہوتا تھا نظر کے تیر سے
کام اب ہوتا ہے وہ کف گیر سے
مروت و مرمت کا فرق سمجھا جاتا یہ پُرمُزاح شعر ’محمد یوسف پاپا‘ کا ہے۔ اس شعر میں ہماری دلچسپی لفظ ’تیر‘ اور ’کف گیر‘ میں ہے۔
فارسی زبان میں ’تیر‘ مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً ایرانی تقویم کا چوتھا مہینا اور ہرمہینے کا تیرہواں دن ’تیر‘ کہلاتا ہے۔ مگر معنوی اعتبار سے ہمیں جس ’تیر‘ سے بحث مطلوب ہے، اس کا تعلق ہتھیاروں کی قبیل سے ہے۔
اس ’تیر‘ کے مترادفات میں ’خدنگ‘ اور ’ناوک‘ شامل ہیں۔
اپنی اصل میں ’تیر‘ ایک صفاتی نام ہے، جو اسے نوکیلے پن کی وجہ سے ملا ہے۔ چوں کہ ’تیر‘ کی کہانی ’تیغ‘ سے جُڑی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ’تیغ‘ کا ذکر ہوجائے۔
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’تیغ’ کے لفظی معنی ’تیز‘ کے ہیں، اور یہ شمشیر کا صفاتی نام ہے۔
’تیر‘ اور ’تیغ‘ کی جڑیں قدیم اوستائی یا قدیم فارسی زبان میں پیوست ہیں۔ وہ یوں کہ اوستائی زبان میں لفظ ’تغیرہ‘ آیا ہے، اس کے معنی ’تیز اور نوکیلا‘ کے ہیں۔
چوں کہ تیر کی اَنّی میں تیزی اور نوکیلا پن دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس لیے اوستائی زبان میں اسے ’تغیرہ‘ کی رعایت سے ’تغیری‘ پکارا گیا، پہلوی زبان میں یہی ’تغیری‘ تخفیف کے بعد ’تیر‘ ہوگیا۔ اب اس تیر کے تعلق سے ایک خوبصورت ملاحظہ کریں:
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
جہاں تک ’تیغ‘ کی بات ہے، تو اس کے معنی ’تیز‘ کے ہیں۔ شمشیر کے ساتھ ساتھ اس کا اطلاق ہر اُس تیزدھار آلے پر ہوتا ہے، جو کاٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یوں ’تیغ‘ کی تعریف میں خنجر، تلوار چھری اور کٹار سب داخل ہیں۔
اس بیان کی روشنی میں ’تیغ‘ صفت قرار پاتی ہے۔ فرہنگ نویسوں نے ’تیر‘ ہی کی طرح ’تیغ‘ کی اصل بھی ’تغیرہ‘ کو قرار دیا ہے۔ اوستا زبان ہی میں ’تیغ‘ کی ایک صورت ’تئغہ‘ بھی ہے۔
یہاں تک تو بات صاف ہے کہ ’تیر‘ اور ’تیغ‘ کا نوکیلا پن اور تیزی دونوں کی مشترکہ صفت ہے۔ اب اس صفت کے ساتھ لفظ ’تغیرہ‘ کو ذہن میں رکھیں اور ’tiger / ٹائیگر‘ کے جبڑے تک جا پہنچیں، آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے کہ اس درندے کو یہ نام کیوں ملا ہے۔
ماہرین لسانیات کے مطابق انگریزی اور قدیم فرانسیسی کے ’tiger‘ کی اصل لفظ ’tigris / ٹائیگرس‘ ہے جو یونانی زبان سے لاطینی زبان میں آیا اور لاطینی سے انگریزی اور فرانسیسی بار پایا۔
یہاں پہنچ کر محققین یونانی ’tigris / ٹائیگرس‘ کی اصل قدیم فارسی کے ’تیغرہ‘ کو قرار دیتے ہیں، اور اس کے معنی ’نوکیلا اور تیزدھار‘ بتاتے ہیں۔ گویا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں ’ٹائیگر، تیغ اور تیر‘ تینوں صفاتی نام ہیں، جو ٹائیگر کو اس کے تیز اور نوکیلے دانتوں، جب کہ شمشیر و تیر کو ان کے نوکیلے پن اور تیزی کی وجہ سے دیے گئے ہیں۔
اس پہلے کہ ’تیر‘ کے فارسی مترافات ’خدنگ‘ اور ’ناوک‘ کا ذکر ہو، ضروری ہے کہ ’تیر‘ کی نسبت سے چند باتوں کا بیان ہوجائے۔
’تیر‘ کی نوک ’پَیکان‘ جب کہ اس کا پچھلا حصہ ’سوفار‘ کہلاتا ہے۔ اور جس چیز میں ’تیر‘ رکھے جاتے ہیں اُسے ’تیر دان‘ اور ’تَرکش‘ کہتے ہیں۔
ماہر لسانیات علی اکبر دہخدا کے مطابق ’تَرکش‘ دراصل ’تِیر کَش‘ کی تخفیف ہے۔ یہ لفظ ’تیر‘ اور کش یعنی کھینچنا سے مرکب ہے، ہوا یہ کہ ’تیر‘ کا پہلا حرف زیر سے زبر ہوا اور اس کے بعد کا ’ی‘ گرگیا، یوں جو کبھی ’تِیرکَش‘ تھا وہ تَرکَش ہوگیا۔ اب اس ’تَرکَش‘ کی رعایت سے عبد الحمید عدم کا شعر ملاحظہ کریں:
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
چوں کہ ’تیر‘ لکڑی کے ہوتے تھے، چنانچہ تیر برابر لکڑی کو بھی مجازاً تیر کہا گیا، مگر جب یہی لکڑی لمبی اور موٹی ہو لٹھ بن گئی تو ’تیر‘ سے ’شاہ تیر/سہ تیر‘ پکاری گئی۔
’تیر‘ کی نسبت سے فارسی اور فارسی کی رعایت سے اردو میں خوب صورت تراکیب رائج ہیں۔ مثلاً
خوش قد محبوب اگر ’تیرقامت‘ ہے، تو اُس کی آنکھیں ’تیرچشم‘، نظریں ’تیرِنظر‘ اور پلکیں ’تیرِ مژگاں‘ ہیں۔
ایسے ہے جو تیر پہ تیر چلائے وہ تیر انداز اور تیر افگن ہے، بے خطا اور ٹھیک نشانے پر جا لگنے والا ’تیرِ ہدف‘ ہے۔
جو تیر بے دلی سے یا بھرپور طور پر نہ کھینچا جائے وہ نشانے کے پار نہیں ہوتا بلکہ الک کر رہ جاتا ہے، وہ ’تیر نیم کش‘ کہلاتا ہے۔ اب اس ترکیب کو غالب کے شعر میں ملاحظہ فرمائیں:
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
وہ تیر جو نشانے پر اس طرح لگے کہ نصف پیوست ہوجائے اور نصف باہر رہ جائے، اسے ’تیر ترازو ہونا‘ کہتے ہیں۔ اس محاورے کو خوش گو شاعر اشفاق حسین کے ہاں دیکھیں:
دل میں سو تیر ترازو ہوئے تب جا کے کھلا
اس قدر سہل نہ تھا جاں سے گزرنا میرا
یون تو ’تیر‘ کے مترادفات میں ’خدنگ‘ اور ’ناوک‘ بھی شامل ہیں، مگر حقیقت میں یہ مترادفات نہیں بلکہ تیر کی دو علیحدہ اقسام ہیں۔ پہلے ’خدنگ‘ کی بات کرتے ہیں۔
یہ دراصل ایک درخت کا نام ہے، جس کی لکڑی ہموار، سیدھی اور انتہائی مضبوط ہوتی ہے اور تیر، نیزہ اور گھوڑے کی کاٹھی بنانے کا کام آتی ہے۔ تیر اگر اس مخصوص لکڑی سے بنا ہو تو ’تیرِ خدنگ‘ کہلاتا ہے۔ اب اس ’خدنگ‘ کو علامہ اقبال کی مشہور ترین فارسی شعر میں ملاحظہ کریں، اورنگزیب عالمگیر کے حوالے سے کہے گئے اس شعر کے دوسرے مصرعے کے بارے میں اقبال کا کہنا ہے کہ 'میں نے اس مصرعے پر چالیس بار نظر ثانی کی تھی تب موجودہ صورت میں یہ مصرع سامنے آیا۔
در میان کارزارِ کفر و دین
ترکش ما را خدنگ آخرین
ترجمہ: معرکہ حق و باطل میں ہمارے ترکش کا آخری تیر۔
چوں کہ ’ناوک‘ کا ذکر تفصیل طلب ہے، اور ابھی ’کفگیر‘ بھی باقی ہے، سو اس قصے کو یہیں تمام کرتے ہیں، اور رہ جانے والے الفاظ کی گرہ کشائی آئندہ نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔