سعودی ریاستی سلامتی کے ادارے نے بیان میں کہا کہ سعودی عرب دہشت گرد حوثیوں کے اثرات کو روکنے کے لیے پرعزم ہے جو نمایاں افراد یا ادارے حوثی ملیشیا سے مالی تعاون کریں گے، انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایسے افراد اور اداروں کو جو تشدد بھڑکانے، یمن اور اس کےعوام اور ان کے مفادات کو خطرات لاحق کرنے کا باعث بنیں گے۔ اسی طرح وہ افراد اور ادارے خطے کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کا باعث بنیں گے اورعالمی جہاز رانی میں تعطل پیدا کریں گے، انسانی مصائب کو بڑھائیں گے ان سب کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ریاستی سلامتی کے سعودی ادارے کا کہنا ہے کہ 19 افراد اور اداروں کے تمام اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ لین دین ممنوع ہے۔ کسی بھی مالیاتی ادارے یا پیشہ ورانہ ادارے کو ان کے ساتھ لین دین کی اجازت نہیں۔عام افراد سمیت کسی بھی ادارے کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل اداروں اور افراد کے ساتھ غیرمالیاتی سرگرمیوں کی بھی ممانعت ہے۔
سعودی عرب نے جن افراد کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے ان میں یمنی شہری صالح بن محمد بن حمد بن شاجع پر دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ تعاون کا الزام ہے۔ وہ مالی تعاون، اسلحہ اور گولہ بارود حوثیوں کو فراہم کررہا تھا۔
یمنی شہری نبیل بن عبداللہ بن علی الوزیر الزھرا ادارے کی مجلس انتظامیہ کا رکن تھا۔ یہ ادارہ دہشت گرد حوثیوں کو رقم اور پٹرول سمگل کرنے میں سہولت فراہم کررہا تھا۔
ایک اور یمنی شہری اسماعیل بن ابراہیم الوزیر متعدد کمپنیوں کا منتظم تھا۔ یہ کمپنیاں حوثی دہشت گردوں کو کیش اور پٹرول کی سمگلنگ میں سہولت دے رہی تھیں۔
یمنی شہری قصی بن ابراہیم الوزیر کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔ یہ ایرانی پاسداران انقلاب سے وابستہ اور ایک فیول آئل کمپنی کا بانی ہے جو حوثی دہشت گردوں کو ایرانی تیل سمگل کرنے میں سہولت فراہم کررہی ہے۔
یمنی شہری علی بن ناصر قرشہ پر القاعدہ تنظیم سے براہ راست تعاون کا الزام ہے۔ یہ حوثیوں کو اسلحہ اور سازوسامان مہیا کررہا تھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور حوثیوں کے درمیان سہولت کار تھا۔ اس نے الذھب الاسود کے نام سے ایک کمپنی قائم کی تھی۔ پٹرول کی دیگر کمپنیاں بھی قائم کیے ہوئے تھا جو ایرانی پٹرول خریدنے اور سمگل کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔
زید بن علی بن یحیی الشرفی یمنی ہے۔ القاعدہ کے ساتھ براہ راست تعاون کررہا تھا۔ یہ سلم رود کمپنی کا مالک ہے۔ آئل پرائمر کمپنی بھی اس کی ملکیت ہے۔ ازال کمپنی کا منتظم بھی تھا جبکہ سام آئل کمپنی کا رکن تھا۔ یہ کمپنیاں حوثیوں کو ایرانی پٹرول سمگل کرنے میں سہولت دے رہی تھیں۔
یمنی شہری عبداللہ بن ابکر عبدالباری ابکر فار آئل سروسز کا بانی ہے۔ حوثیوں کو ایرانی تیل کی درآمد میں تعاون کا الزام ہے۔
صدام بن احمد بن محمد الفقیہ بھی یمنی ہے۔ القاعدہ تنظیم سے براہ راست تعاون کررہا تھا۔ یہ سام آئل کمپنی کا بانی اور الفقیہ العالمیہ کمپنی کی مجلس انتظامیہ کا رکن تھا۔ یہ دونوں کمپنیاں حوثیوں کو ایرانی پٹرول سمگل کرنے میں سہولت دے رہی تھیں۔
ریاستی سلامتی کے ادارے نے دہشت گردوں کی فہرست میں جن اداروں کو شامل کیا ہے ان میں سام آئل کمپنی ، خدمات نفطیہ لمیٹڈ کمپنی، الزھرا تجارتی ادارہ، ابراج الیمن کمپنی، الذھب الاسود کمپنیِ، فیول آئل کمپنی، سلم رود کمپنی، ابکر آئل سروسز کمپنی، الفقیہ العالمیہ کمپنی، آئل سروسز لمیٹڈ کمپنی، سبا انٹرنیشنل کمپنی، آئل پرائمر کمپنی، یمن ابوت کمپنی اور صحاری منی ایکسچینج کمپنی شامل ہیں۔