Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولنگ ختم، ووٹوں کی گنتی جاری

پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل ختم ہوگیا ہے اور اس وقت ووٹوں کی گنتی جاری ہے جبکہ غیرحتمی غیر سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہو کر بلاتعطل شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تمام حلقوں میں عمومی طور پر پولنگ کی صورتحال پر امن اور تسلی بخش رہی۔
الیکشن کمیشن نے مزید کہا ہے کہ شام 6 بجے کے بعد میڈیا غیر حتمی نتائج کا اعلان کر سکتا ہے۔ 

عمران خان کا پنجاب حکومت پر دھاندلی کا الزام

دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان الزام لگایا ہے کہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم اور انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈھٹائی سے دھاندلی کے لیے سرکاری اور ریاستی مشینری کا استعمال کیا ہے۔ 
اتوار کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ پنجاب کے انتخابات میں غیر قانونی طریقوں سے بیلٹ پیپرز پر مہریں لگائی گئیں، ووٹرز کو حراساں کیا گیا اور پی ٹی آئی رہنماوں کو گرفتار کیا گیا۔ 
انھوں نے کہا کہ اس سارے معاملے پر الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اب عدالتیں کھلنی چاہیئں اور کام کریں۔
قبل ازیں صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ پولنگ کا وقت نہیں بڑھایا جائے گا۔ پانچ بجے تک پولنگ سٹیشن کے احاطے میں موجود افراد وقت گزنے کے بعد بھی ووٹ پول کرسکتے ہیں۔
صبح ووٹنگ شروع ہونے کے بعد کئی پولنگ سٹیشنز پر رش دیکھنے میں آیا جبکہ کچھ سٹیشنز پر ووٹرز کم تھے۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر داخلہ عطا تارڑ نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر صوبے بھر میں پولنگ کا عمل بغیر کسی تعطل کے جاری رہا البتہ صوبائی دارالحکومت لاہور کے کئی پولنگ سٹیشنز پر سیاسی کارکنوں کے درمیان جھگڑے ہوئے۔ حلقہ پی پی 158 میں ایک سیاسی کارکن کا جھگڑے کے دوران سر پھٹ گیا۔ 
پولیس کی اینٹی رائٹس فورس کو حساس علاقوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پولیس نے پولنگ سٹیشنز کے 100 میٹر کے فاصلے تک غیر متعلقہ افراد کے آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے پی پی 158 میں ہونے والے جھگڑے کا نوٹس لیا۔ 
ن لیگ نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ایک کارکن شکیل پر تشدد کیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف پولیس پر جانبداری کا الزام لگایا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ’صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کے کنٹرول روم میں پولنگ اسٹیشنز پر تصادم کی 5 شکایات موصول ہوئیں۔ یہ شکایات ووٹرز اور کارکنان کے درمیان جھگڑوں کی ہیں۔‘
ضمنی انتخابات کے دوران خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نکلی۔ خواتین اور مردوں نے تقریباً ایک ہی تناسب سے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کو منی جنرل الیکشن کہا جا رہا ہے۔
 الیکشن کمیشن کی حتمی پولنگ سکیم کے مطابق مجموعی طور پر 45 لاکھ 79 ہزار آٹھ سو 98 رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ 
وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’ووٹ کی طاقت سے انتشار، نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کریں اور قومی ترقی کے لیے ووٹ ڈالیں۔‘

ضمنی انتخابات کے دوران خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نکلی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

مرکزی اور صوبائی کنٹرول روم قائم

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے ضمنی انتخابات کے لیے مرکزی اور صوبائی کنٹرول روم قائم کیے تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اسلام آباد سے پولنگ کی نگرانی کرتے رہے۔
الیکشن کمیشن سے جاری بیان میں کہا گیا تھا ’پولنگ میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے گا۔‘
پنجاب کے چیف الیکشن کمشنر سکندر راجہ سلطان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ ’کسی قسم کی قانون کی خلاف ورزی اور پرتشدد واقعات کی بالکل اجازت نہ دیں۔‘
انہوں نے تمام ریٹرننگ اور مانیٹرنگ آفیسرز سے کہا تھا کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کریں اور پرتشدد واقعات کا نوٹس لیں۔

الیکشن کمیشن کی مظفر گڑھ میں پولنگ ایجنٹ باہر نکالنے کی تردید

الیکشن کمیشن نے مظفر گڑھ میں پولنگ سٹیشن 46,47 پر پولنگ ایجنٹ کو باہر نکالنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے الزام لگایا تھا کہ مظفر گڑھ میں ان کے امیدوار معظم جتوئی کے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا۔
شیخوپورہ میں پولیس نے مشکوک گاڑی سے اسلحہ برآمد کیا ہے۔ پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
ضلعی پولیس افسرفیصل مختار نے کہا ہے کہ انتخابات کے دن قانون کی کلافورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسمبلی کے مزید اراکین بھی استعفے دیں گے۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کا ووٹر پرجوش ہیں اور جیت ان کی ہے۔
ملتان میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ن لیگ کے تین ووٹ کم ہوگئے ہیں، ایک نا اہل ہو گیا اور دو نے استعفے دے دیے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے 173 ووٹ ہیں اور تحریک انصاف اور اتحادیوں کے بھی 173 ووٹ ہیں۔

انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر پولیس کے ساتھ رینجرز کی بھی ڈیوٹی لگائی گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

حساس پولیس سٹیشنز پر سخت سکیورٹی 

ان 20 حلقوں میں کل 3131 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے۔ مردانہ پولنگ سٹیشنوں کی تعداد 731، خواتین کے لیے 700 جبکہ 1700 مشترکہ پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت 20 حلقوں کے سینکڑوں پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا۔ انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر پولیس کے ساتھ رینجرز کی بھی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جبکہ سکیورٹی کے تیسرے حصار کے طور پر فوج کے دستے بھی الرٹ رہے۔ 
سینچر کو تمام حلقوں میں پولیس نے فلیگ مارچ کیا جبکہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر وزارت داخلہ نے 2000 ایف سی اہلکار بھی سکیورٹی کی صورت حال بہتر رکھنے کے لیے تعینات کیے تھے۔ 
صوبائی الیکشن کمشنر نے تمام پریزائڈنگ افسران کو سخت سیکیورٹی میں انتخابی عمل سے متعلق سامان حوالے کیا اور پولیس کی نگرانی میں پولنگ عملے کو ان کے متعلقہ پولنگ سٹیشنز تک پہنچایا گیا۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف سے ایک دوسرے پر الیکشن سے قبل دھاندلی کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے بھی ایک دوسرے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 

الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے اسلام آباد سے پولنگ کی نگرانی کی(فوٹو: ای سی پی)

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے میڈیا کو ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا تھا کہ وہ ان انتخابات کی ایسی کوریج نہ کرے جس سے کسی ایک جماعت کی حمایت کا تاثر ملے اسی طرح دھاندلی یا انتخابی بے ضابطگی سے متعلق کوئی بھی خبر بغیر تصدیق کے نہ چلانے کی ہدایت کی گئی۔ 
خیال رہے کہ یہ ان 20 حلقوں میں انتخاب ہوا ہے جن کے منتخب اراکین نے وزیراعلٰی کے انتخاب میں تحریک انصاف کی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر حمزہ شہباز کو ووٹ دیا بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ان تمام اراکین کو ڈی سیٹ کردیا۔ جن کے حلقوں میں آج دوبارہ انتخابات ہوئے۔
مسلم لیگ ن نے تقریباً تمام ٹکٹس ان منحرف اراکین کو دیے جنہوں نے وزیراعلٰی کے انتخاب میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ تاہم تحریک انصاف اپنے امیدواروں کو ہی سامنے لائی۔

شیئر: