ایرانی حکام نے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ایک شخص نے اسرا پناہی کا رشتہ دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سرکاری ٹی وی پر کہا کہ ’اس کی موت دل کے عارضے کے باعث ہوئی۔‘
یاد رہے کہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد حالیہ ہفتوں میں ایران میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ نوجوان خواتین اور لڑکیوں نے خاص طور پر حکومت کی مخالفت کی۔
متعدد ویڈیوز میں انہیں حجاب اتارتے اور ملک کے سپریم لیڈر کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا گیا تھا۔
ایران کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’مظاہرین کے خلاف کارروائی کے دوران اب تک 215 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 27 بچے بھی شامل ہیں۔‘
ایک سکول طالبہ نازنین (فرضی نام) نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا کہ ’مجھے سکول جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ میرے والدین کو ڈر ہے کہ مجھے مار نہ دیا جائے، لیکن کیا بدلا ہے؟ حکومت نے لڑکیوں کو مارنے اور گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔‘
’میں نے اور میری ساتھیوں نے رواں ہفتے احتجاج میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ میں یہ کروں گی چاہے مجھے یہ سب اپنے والدین سے چھپانا پڑے۔‘
ایک خاتون نرگس (فرضی نام) نے کہا کہ ’اسرا پناہی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہرے میں ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔‘
’اس ظالمانہ تشدد نے ہم سب کو متحد کردیا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بلوچ اور کرد علاقوں میں ہم اس قدر متحد ہیں۔ اسلامی جمہوریہ 40 برس سے ہمارے لوگوں کو مار رہی ہے، لیکن ہماری آواز نہیں سنی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا جان لے کہ یہ محض احتجاج نہیں بلکہ انقلاب ہے۔ اب آپ ہماری آواز سن رہے ہیں تو ہم رکیں گے نہیں۔‘